ساری تعبیریں ہیں اس کی سارے خواب اس کے لیے
ساری تعبیریں ہیں اس کی سارے خواب اس کے لیے
ہر سوال اس کے لیے ہے ہر جواب اس کے لیے
ہجر کے لمحے شماریں یا لکیریں حرف ہم
ہر حساب اس کے لیے ہے ہر کتاب اس کے لیے
قرب اس کا ہے ہماری واپسی کا منتظر
جھیلتے ہیں ہم بھی دوری کا عذاب اس کے لیے
وہ ہمارے واسطے رہتا ہے ہر دم مضطرب
ہم بھی ہیں آئے ہوئے زیر عتاب اس کے لیے
اس کے ہر دکھ کا مداوا اپنے بس میں بھی نہیں
اشک خوں اس کے لیے ہیں دل کباب اس کے لیے
من کی ہر خواہش کو وارا اس کی چاہت پر شفیقؔ
کھل رہے ہیں تن پہ زخموں کے گلاب اس کے لیے