سر میں ایک سودا تھا بام و در بنانے کا

سر میں ایک سودا تھا بام و در بنانے کا
آج تک نہیں سوچا ہم نے گھر بنانے کا


یوں نہ رینگتی رہتیں کاغذوں پہ تصویریں
وقت جو ملا ہوتا بال و پر بنانے کا


یوں کہاں بھٹکتے ہم خواہشوں کے صحرا میں
فن اگر ہمیں آتا مال و زر بنانے کا


چل دیے اکیلے ہی جستجوئے منزل میں
کام خاصا مشکل تھا ہم سفر بنانے کا


یہ ہنر بھی آخر کو اس نے سیکھ کر چھوڑا
ہم سے ہوش مندوں کو بے خبر بنانے کا


ایک شوق ایسا بھی ہم نے پال رکھا ہے
بے وقار لوگوں کو معتبر بنانے کا