کنج تنہائی بسائے ہجر کی لذت میں ہوں
کنج تنہائی بسائے ہجر کی لذت میں ہوں
سب سے دامن جھاڑ کر بس اک تری چاہت میں ہوں
کون سا سودا ہے سر میں کس کے قابو میں ہے دل
ہر قدم صحراؤں میں ہے ہر گھڑی وحشت میں ہوں
میں اناؤں کا تھا پروردہ تو پھر دست سوال
کس طرح پھیلا کسی کے سامنے حیرت میں ہوں
یہ بھی کیا بے چارگی ہے کاغذی شادابیاں
اپنے چہرے پر سجائے حجلۂ غیرت میں ہوں
ایک خواہش کے ہزاروں رنگ عمر مختصر
کچھ بھی کر پاتا نہیں میں اس قدر عجلت میں ہوں
اے مرے گھر! اب تو مجھ کو کھینچ لے اپنی طرف
اور کتنی دیر میں اس عرصۂ ہجرت میں ہوں