خلق خدا ہے شاہ کی مخبر لگی ہوئی

خلق خدا ہے شاہ کی مخبر لگی ہوئی
خاموشیوں کی بھیڑ ہے گھر گھر لگی ہوئی


سنگ و سگ و صدا سبھی پیچھے پڑے ہوئے
اک دوڑ سی ہے ہم میں برابر لگی ہوئی


صد اہتمام گریہ بھی آیا نہ اپنے کام
بجھتی نہیں ہے آگ سی اندر لگی ہوئی


آؤ کہ مطمئن کریں اپنے ضمیر کو
مہر سکوت توڑ دیں لب پر لگی ہوئی


لازم ہے احتیاط فقیہان شہر کو
ہر اک نظر ہے اب سر منبر لگی ہوئی


مدت کے بعد آئے تو روٹھی ہوئی سی تھی
تختی ہمارے نام کی در پر لگی ہوئی


اڑتی رہی کچھ اس طرح رسوائیوں کی خاک
جیسے شفیقؔ بات کوئی پر لگی ہوئی