سوال کرتا نہیں اور جواب اس کی طلب

سوال کرتا نہیں اور جواب اس کی طلب
کہ ان کہی کا بھی دہرہ عذاب اس کی طلب


زمین شور سے کونپل نمو کی مانگتا ہے
نہال خشک سے تازہ گلاب اس کی طلب


وہ آنکھ کھلنے کا بھی انتظار کرتا نہیں
درون خواب ہی تعبیر خواب اس کی طلب


وصال رت کا ہر اک لمحہ اس کے نام کیا
مگر ہے گزرے دنوں کا حساب اس کی طلب


شفیقؔ دن کا اجالا تو پڑھ نہیں سکتا
پس غروب بھی اک آفتاب اس کی طلب