Shafiq Fatima Shora

شفیق فاطمہ شعریٰ

شفیق فاطمہ شعریٰ کی نظم

    شہر نوا

    اس گرد و نواح میں مہکی تھی وہ نغمہ بہ لب لالے کی کلی پتی پر لپٹی پتی سرکاتی آہستہ خرام سنہری دھوپوں میں اک پوری رت کا خم اس کے امرت سے بھرا اک پوری رت ڈنڈی ڈھلکانے پنکھڑیاں بکھرانے کو درکار ہوئی سب چمن چمن گل حوض لبالب سائے گھنے جھونکوں کی صورت کی رواں دواں افتادہ بظاہر سب ...

    مزید پڑھیے

    کھیل رتوں کا

    اک رت آئے اک جائے ہم رت رت چونکیں کروٹ بدلیں سو جائیں معصوم گلاب پھواریں بے لفظ تحیر بادل چمکیلے سفینے میداں ٹھہرا ہوا پانی سائے وہ جزیرے دھانی اجلی شادابی آنکھیں بھونرا تو ہنسی فوارہ پھر دھول دھوئیں کا پردہ آنا جانا چونکانا اک کھیل رتوں کا اپنی نظروں سے اوجھل اک سیارہ دل ...

    مزید پڑھیے

    پریتی

    تم نہیں ہو مٹنے والی نہیں پاتی ہو جنم تم نئے نئے ہر نئی بہار کے پھولوں میں مانند حیات تمہارے پتے بھی پیلے پڑ جاتے ہیں مانند حیات تمہیں بھی ڈھک دیتی ہے برف پر تمہاری مٹی میں پریتی پکے بچنوں کے بیج دبے ہیں پورا ہونا ہے جن کو بسر اوے میں بھی پیت نہ کرنے کی یہ دھن بیکار ہے یہ مہکار ...

    مزید پڑھیے

    مسافر پرندے

    افق تا افق نیلگوں آسماں مسافر پرندوں کی منزل کہاں بہت دور پیچھے کو اس بحر کے ماورا اترتی رہی برف جمتی رہی تہ بہ تہ آشیانوں کے پاس تب نظارے نظر آشنا اذن آوارگی زاد افسردگی دے کے تھرائے با چشم تر کہ شاید بہت دور آگے کو اس بحر کے ماورا زمرد جڑے ساحلوں نے سنا ہو سلام عید کا دھوپ کے ...

    مزید پڑھیے

    لب کشا

    یہ چپ کتنے دن کی تھی جو آنسوؤں میں ڈھلی یہ گہری چٹان ایسی پتھریلی جامد انوکھی سی چپ اس کا چھونا بھی ممکن تھا تب یہ چپ تھی کہ پورا وجود اپنا جو آنسوؤں میں ڈھلا بتاؤ تو اس چپ کی بھیدوں بھری تھاہ میں شور کیا تھا بتاؤ تو کیا گونج تھی ایک صدا دوسری سے ہم آہنگ جس میں نہ تھی جیسے صدیوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3