کھیل رتوں کا

اک رت آئے اک جائے
ہم رت رت چونکیں
کروٹ بدلیں سو جائیں


معصوم گلاب پھواریں
بے لفظ تحیر
بادل چمکیلے سفینے
میداں ٹھہرا ہوا پانی
سائے وہ جزیرے دھانی
اجلی شادابی آنکھیں
بھونرا تو ہنسی فوارہ
پھر دھول دھوئیں کا پردہ
آنا جانا چونکانا
اک کھیل رتوں کا
اپنی نظروں سے اوجھل
اک سیارہ دل اپنا
انجانے کہر میں ڈوبا
عریاں پر نم کا
شفاف رقیق اجالا
وہ گھلتے پگھلتے کھنڈر
وہ سناٹا اس میں پگھلتا
دیکھا تو قلم بھی اپنا
اک دن پگھلا پگھلا تھا


شعریٰ شعریٰ شاید اک
طائر تھا جو چہکارا


دھندلے دھندلے غاروں میں
وہ گھومتے پھرتے رستے
آواز کے لہرے کو پھر


باہر لے آئے
تپتے سورج کے نیچے


سورج کے نیچے جھرنا
ہمہمہ نہ تھمنے والا
روشن پانی کا
بوچھار کا شور ہوا میں
اڑتی ہوئی جگ مگ ٹھنڈی
سیمابی چھلکی چھلکی
سورج کے نیچے جھرنا
کرنوں کے لیے آئینہ


پتھر کے سراپا
ان کی
پتھر خاموشی
اک چکنا چور چھناکا
شیشے کا ظرف تھا کوئی


کافر کافر سرگوشی
برہم سرگرم ہوا کی
کافر کافر وہ گچھے
پھولوں کے پھولوں کے خزانے
اونچی شاخوں سے جھکائے
کس نے
کیا تنہا تم نے
کافر کافر سرگوشی
باتیں اور کتنی باتیں
جاری تھیں کتنے موسم
بدلے کتنی تقدیریں
تحریریں ان کے ابھرنے
مٹنے میں اپنا ابھرنا
مٹنا
مٹتے مٹتے بھی
ہم فائق سب سے کہنا
کہہ کر کھل اٹھنا
اب اک سپنا لگتا ہے


رت کاجل پگھلا پگھلا
رت گہرا جل بسراوا
اک خاک بسر آنگن سے
اگتا ہوا تارا نغمہ
جینے کا جواز ہے کس کا
اپنا نہیں پھر بھی کتنا
اپنا لگتا ہے
اس پر سر دھنتے دھنتے
مٹ جائے یاد نہ آئے
پیرایہ ما و شما کا
یہ کون سی رت ہے
کس سے
پوچھیں
کیا نام ہے اس کا