Shafiq Fatima Shora

شفیق فاطمہ شعریٰ

شفیق فاطمہ شعریٰ کے تمام مواد

25 نظم (Nazm)

    ڈرتے ڈرتے دم سحر سے

    چاند بیگانہ ہے کون اس کو کہے گا اپنا اس کے حالات جدا اس کے مقامات جدا نو دمیدہ کبھی کامل کبھی ناپید کبھی بس یہی رنگ تلون ہے تشخص اس کا تارے سرگوشیاں کرتے رہے ان کی تب و تاب ان سے اچھی کہ رسائی مرے دل تک پائی چاند نے سوچا مرا قصہ بھی مجھ سے بہتر جو وہاں چلتا رہا گونج یہاں تک ...

    مزید پڑھیے

    سلامت سبوچہ ترا ساقیا

    ازل بھولا بسرا سا اک خواب ہی سہی بند اک باب ہی وہ سدا کے لیے مگر بارہا حرف حق لوح جاں سے مٹایا گیا جب بہ انواع جبر ازل ہی وہ مصرعہ اٹھانا ابد تک جسے ناگزیر دھماکے سے پہلے کی اک سنسنی بنی امتحاں گاہ میں خوف و دہشت کے ہم دوش اک ذمہ داری کا بار یہاں ہم نہ ہوتے جو امیدوار تو ہوتے کوئی ...

    مزید پڑھیے

    افق در افق

    سمٹتے پھیلتے پیہم سلگتے اور دھندلاتے افق جب پے بہ پے ابھریں افق جب پے بہ پے ڈوبیں تو اپنا کام کیا ہے ناؤ اپنی کھیتے رہنا ہے افق محراب در محراب اپنے دوار پھیلائے تعاقب کے اشارے برق بن کر کوند جاتے ہیں بدل جاتی ہیں راہیں دوریاں بڑھتی ہی رہتی ہیں کبھی بے کارواں بے مشعل و شور جرس ...

    مزید پڑھیے

    اے ہم نفساں

    بلڈوزر قدموں سے چلتی کالونی بکتر بند نئی بے حد توسیع کے صحرا میں کیا سونگھ رہی ہے سونڈ اٹھائے آدم بو آنکھیں پلکیں جھپکاتے رہنے پر مامور اس کی بے وقفۂ خواب سگنل کی بتی جلتی بجھتی سدا دن ہو یا رات سنسنی زدہ ہر کھٹکے پر اعصاب شاہد آ ہی گیا آنے والا یوم حساب حربہ میں خود اپنے محارب ...

    مزید پڑھیے

    زوال عہد تمنا

    ہوا میں اڑتا ہے کاجل فضا ہے حزن سے بوجھل ہر ایک کنج کی ہلچل کہر میں ڈوب چلی ہے وہ کہکشاں ہے وہ اس پر سحاب نور کا باراں یہ اپنا خاک بسر گھر یہ اپنی تیرہ گلی ہے وہ ماہ نکلا پہ اس کا فروغ بحر فلک ہے نصیب ارض تو شاید تکدر ازلی ہے نہ جانے کب سے خیالوں میں اپنے محو کھڑی ہے وہ اک سکھی جو ...

    مزید پڑھیے

تمام