Shafiq Fatima Shora

شفیق فاطمہ شعریٰ

شفیق فاطمہ شعریٰ کی نظم

    ڈرتے ڈرتے دم سحر سے

    چاند بیگانہ ہے کون اس کو کہے گا اپنا اس کے حالات جدا اس کے مقامات جدا نو دمیدہ کبھی کامل کبھی ناپید کبھی بس یہی رنگ تلون ہے تشخص اس کا تارے سرگوشیاں کرتے رہے ان کی تب و تاب ان سے اچھی کہ رسائی مرے دل تک پائی چاند نے سوچا مرا قصہ بھی مجھ سے بہتر جو وہاں چلتا رہا گونج یہاں تک ...

    مزید پڑھیے

    سلامت سبوچہ ترا ساقیا

    ازل بھولا بسرا سا اک خواب ہی سہی بند اک باب ہی وہ سدا کے لیے مگر بارہا حرف حق لوح جاں سے مٹایا گیا جب بہ انواع جبر ازل ہی وہ مصرعہ اٹھانا ابد تک جسے ناگزیر دھماکے سے پہلے کی اک سنسنی بنی امتحاں گاہ میں خوف و دہشت کے ہم دوش اک ذمہ داری کا بار یہاں ہم نہ ہوتے جو امیدوار تو ہوتے کوئی ...

    مزید پڑھیے

    افق در افق

    سمٹتے پھیلتے پیہم سلگتے اور دھندلاتے افق جب پے بہ پے ابھریں افق جب پے بہ پے ڈوبیں تو اپنا کام کیا ہے ناؤ اپنی کھیتے رہنا ہے افق محراب در محراب اپنے دوار پھیلائے تعاقب کے اشارے برق بن کر کوند جاتے ہیں بدل جاتی ہیں راہیں دوریاں بڑھتی ہی رہتی ہیں کبھی بے کارواں بے مشعل و شور جرس ...

    مزید پڑھیے

    اے ہم نفساں

    بلڈوزر قدموں سے چلتی کالونی بکتر بند نئی بے حد توسیع کے صحرا میں کیا سونگھ رہی ہے سونڈ اٹھائے آدم بو آنکھیں پلکیں جھپکاتے رہنے پر مامور اس کی بے وقفۂ خواب سگنل کی بتی جلتی بجھتی سدا دن ہو یا رات سنسنی زدہ ہر کھٹکے پر اعصاب شاہد آ ہی گیا آنے والا یوم حساب حربہ میں خود اپنے محارب ...

    مزید پڑھیے

    زوال عہد تمنا

    ہوا میں اڑتا ہے کاجل فضا ہے حزن سے بوجھل ہر ایک کنج کی ہلچل کہر میں ڈوب چلی ہے وہ کہکشاں ہے وہ اس پر سحاب نور کا باراں یہ اپنا خاک بسر گھر یہ اپنی تیرہ گلی ہے وہ ماہ نکلا پہ اس کا فروغ بحر فلک ہے نصیب ارض تو شاید تکدر ازلی ہے نہ جانے کب سے خیالوں میں اپنے محو کھڑی ہے وہ اک سکھی جو ...

    مزید پڑھیے

    بہتا پانی

    اجلے اجلے تناور تنوں پر تھمے نخل زار منتشر ان میں سیماب گوں نو دمیدہ ہلال ان گنت بیکرانی کے شفاف زینوں پہ وہ فاصلوں کا بھرم بستیاں دور دور آب گوں اک دھندلکے میں لپٹی فضا خواب گوں اور نظر کی پہنچ پست و بالا میں بے روک میں نے کہا کن کے ناموں سے منسوب ہوں گے یہ تکیے قدیم شائبہ سا اک ...

    مزید پڑھیے

    باز گشت

    نغمہ زار درد کی جانب چلے ہم ایک بھی ذرہ نہ کچلا جائے اس رفتار سے نغمہ زار درد کی جانب چلے ہم کنج میں پیڑوں کے سورج جھانکتا تھا کوہساروں سبزہ زاروں میں جھمکتی روشنی کا جشن تھا جشن جاری ہی رہے گا تا ابد جاری رہے نغمہ زار درد کی جانب چلے ہم لعل و مرمر سے گندھا قالب اور اس کے محور اس کے ...

    مزید پڑھیے

    نوائے‌ پیرائے کار گہہ شیشہ گری

    طلسم صوت جس کا نام تھا پھر وہ گپھا آئی تھکن کی نیند جیسی گنگناتی جھومتی ٹھنڈی ہوا آئی جہان شور و شر لیکن کسی کو چین سے کب سونے دیتا ہے صدائیں کتنی انمل ایک لا یعنی تسلسل میں ترانے اشتہاری چہچہے قوالیاں اقوال زریں ڈائیلاگ اشعار نا موزوں پکاریں مانجھیوں کے گیت پھر ستیم شرن سنگھم ...

    مزید پڑھیے

    سلسلۂ مکالمات خود کلامی

    کب سے اس آتش‌ نفس کا یہ دبستان قدیم چل رہا تھا ناگہاں نکلا نتیجہ امتحان علم اسما کا تبھی سے رہ گئی ہو کر مقفل یہ عمارت اور چھٹی پر معلم اپنے حجرے میں مقیم آدم خاکی کی پیدائش سے پہلے جن کا کہنا تھا زمیں پر خون بہائے گا یہ ناحق اور مچائے گا فساد اب وہی پیشین گو امیدوار اس کے گن گاتے ...

    مزید پڑھیے

    اک ستارہ آدرش کا

    اے تماشا گاہ عالم روئے تو ماہ نو ہم دیکھتے تجھ کو کس ارمان سے دیکھتے ہی دیکھتے تحلیل ہو جانا ترا دیکھتے ہم پھر بھی تجھ کو ڈھونڈ رہتے اسی سونے افق میں اے ہلال وقت کے دریا میں ماہی گیر نے ڈالا ہے جال کس لیے ساحل کا پتھر بن کے ماہی گیر بیٹھے ہوں یہاں تھاہ میں ڈوبے ہوئے وہ مہر و ماہ بن ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3