نوائے‌ پیرائے کار گہہ شیشہ گری

طلسم صوت جس کا نام تھا پھر وہ گپھا آئی
تھکن کی نیند جیسی گنگناتی جھومتی
ٹھنڈی ہوا آئی
جہان شور و شر لیکن
کسی کو چین سے کب سونے دیتا ہے
صدائیں کتنی انمل
ایک لا یعنی تسلسل میں
ترانے اشتہاری چہچہے قوالیاں
اقوال زریں ڈائیلاگ اشعار نا موزوں
پکاریں مانجھیوں کے گیت
پھر ستیم شرن سنگھم شرن دھمم شرن میں
جا رہا ہوں میں
سریلے شور کا رتھ بان کہتا ہے
وہ نیرنگ مظاہر کا کھلا شوکیس
سوتا رہ گیا کیسے


تبھی بیدار سونا منچ بے سامان و گمان
اک دور کی آواز سے گونجا
کسی گوشے سے اک نو عمر خوش الحان قاری کی صدا آئی
سنایا جا رہا تھا یوسف صدیق کا قصہ
گداز جاوداں میں
ان لکھی جاتک کتھاؤں کے
وحوش و طیر
لتائیں میگھ دوت اشجار


یہ انساں بھی عجب ہے
زمانوں سے اسے ہم
جانتے پہچانتے ہیں
راز سر بستہ مگر اس کا
وہی جانے جو ہے تصویر گر اس کا
صداقت ہی کا سارا کھیل ہے بھیا
اسی سے ایک ذرہ رو کش مہر و مہہ و اختر
صداقت جینے مرنے ٹوٹنے جڑنے الجھنے در گزرنے کی
کہاں ہے
ہویدا ایک لوح سنگ جس پر
ابھر آئے وہ ایوان مدائن کے کھنڈر آئینۂ عبرت


کہاں کی خسروی آزادگی سرمستی و شوخی
وہی اندھا کنواں خناس سوتیلے رویہ کا
گزرتے قافلوں کی آہٹوں سے دور
جرس کی بانگ سے مہجور
نہیں یہ زیادتی ہے ہوش میں آؤ
کوئی یوں کفر بکتا ہے
ادھر دیکھو
ہوا زنداں کی کیا ہے کیا بنا دیتی ہے انساں کو
اگر زنداں ہو قزاقوں اٹھائی غیروں کا مسکن
وہ زنداں اور ہے لیکن
نشیمن گیر ارباب ہمم جس میں
وہی تو خوب تر محبوب تر اس کی نگاہوں میں ہے
ایسے جشن دعوت خوان نعمت ہے
جہاں اس کی طلوع صبح صادق سی نمود
اک آج کا مہرہ
بساط بزم کی رونق
سلاخوں میں مقفل یا سلاخوں پار
کھلی دنیا میں جو ایسا مبرا
معاصر علتوں سے
ظاہر و باطن سلامت ہے
وہی لا ریب دارائے کرامت ہے نوا پیرا