اے ہم نفساں
بلڈوزر قدموں سے چلتی
کالونی بکتر بند نئی
بے حد توسیع کے صحرا میں
کیا سونگھ رہی ہے سونڈ اٹھائے
آدم بو
آنکھیں پلکیں جھپکاتے رہنے پر مامور اس کی
بے وقفۂ خواب
سگنل کی بتی جلتی بجھتی سدا
دن ہو یا رات
سنسنی زدہ ہر کھٹکے پر اعصاب
شاہد آ ہی گیا
آنے والا یوم حساب
حربہ میں خود اپنے
محارب کا
یوں ڈھل جانا
خود کو کھو کر غلبہ پانا
اے دیدۂ عبرت بیں
ایک طرفہ تماشا ہے
مصنوعی مشینی دنیا میں
مصنوعی مشینی جیت اور ہار
جب تک تم تم ہو
کچھ نہیں کھویا ہم نے
اے ہم نفسان جفا دیدہ
اے ہم نفسان حزیں
جب تک تم تم ہو
آدم زاد یہاں
ہر جبر کے مد مقابل ہے
سرمست ازل آزاد
خوش باش نڈر پاکیزہ نہاد
تم عالم خواب کے باز اشہب
کبریت احمر نایاب
پھر بھی دھارا سا تمہارے دم سے
چاہت کے ارمانوں کا
بہتا رہتا ہے دلوں میں
تمہارے ہوتے
ریزاریز نہ ہو پائیں گی یہاں
حسن و خوبی کی یہ تعبیرات
سہانی اجلی تعمیرات
با رونق جن سے
شرق و غرب یہ بزم جہات