Shabbeer Ehram

شبیر عالم احرام

شبیر عالم احرام کی غزل

    دنیائے ہست و بود سے آگے کی بات کر

    دنیائے ہست و بود سے آگے کی بات کر اے روح اب وجود سے آگے کی بات کر مجھ کو کتاب کن کا ہر اک باب حفظ ہے تو عاد اور ثمود سے آگے کی بات کر مجھ کو فراز عشق بتا واعظ عزیز اب زہد سے سجود سے آگے کی بات کر اس دور میں شہید کے وارث کو مال دے پھر شاہد و شہود سے آگے کی بات کر لب کھول علم و فن کے ...

    مزید پڑھیے

    طرز مجہول سر چشم نمودار ہوئے

    طرز مجہول سر چشم نمودار ہوئے پھول ہی پھول سر چشم نمودار ہوئے حرف جتنے بھی روانہ تھے سوئے عرش بریں ہو کے مقبول سر چشم نمودار ہوئے چشم حیراں کہ شب وصل مع تشنہ دہن چشم مبلول سر چشم نمودار ہوئے ایک عاجز کو تھمائی گئی شمشیر انا پھر جو مقتول سر چشم نمودار ہوئے مرثیہ ہے کہ کئی پھول ...

    مزید پڑھیے

    بے کرانی تھی پس باب مقفل قید تھا

    بے کرانی تھی پس باب مقفل قید تھا عشق کا مارا کسی غم میں مسلسل قید تھا وہ حریم دل سے باہر تھا مگر اس کا خیال دل کے اندر ہی کسی خانے میں بیکل قید تھا آخرش اس کو بھی اب سولی پہ لٹکایا گیا زندگی بھر جو پس دیوار مقتل قید تھا مثل برکش زندگی جیتا تھا رہا در یتیم وہ رہائی کے دنوں میں بھی ...

    مزید پڑھیے

    جب سے مدھم مری قسمت کے ستارے ہوئے ہیں

    جب سے مدھم مری قسمت کے ستارے ہوئے ہیں نفع کے نام پہ بھی مجھ کو خسارے ہوئے ہیں ایک تم ہو کہ مقدر کے سکندر ٹھہرے ایک ہم ہیں کہ جو حالات کے مارے ہوئے ہیں بھول جاتے ہیں ہر اک داغ جگر عید کے دن پر وہ لمحے جو ترے ساتھ گزارے ہوئے ہیں ایک جھپکی میں ہی ممکن ہے کہ کنکر بن جائیں یہ جو کچھ ...

    مزید پڑھیے

    میان جنگ مسلسل کمان کھینچ کے رکھ

    میان جنگ مسلسل کمان کھینچ کے رکھ گہر ہر ایک شناور کا دھیان کھینچ کے رکھ تو اپنے آپ میں عالی مقام ہو کہ نہ ہو بس اپنے سامنے والوں کے کان کھینچ کے رکھ ہزار زور دکھاویں تجھے یہ برساتیں مرے عقاب تو اپنی اڑان کھینچ کے رکھ ابھی چھلانگ لگائے گا آسماں والا تو بس زمین پہ کپڑے کا تھان ...

    مزید پڑھیے

    وصل کو ہجر کی دوا سمجھے

    وصل کو ہجر کی دوا سمجھے ہائے یہ آج کل کے نا سمجھے ایک بچے کی توتلی باتیں تم نہ سمجھے تو اور کیا سمجھے میں ترے مسئلے میں پڑ گیا ہوں اب مرے مسئلے خدا سمجھے ایک آزر نے دست کاری کی لوگ پتھر کو دیوتا سمجھے چند مصرعے گڑھے غزل کہہ لی اور خود کو بہت بڑا سمجھے اک مثلث کے تین کونے ...

    مزید پڑھیے

    دریاؤں سے نور لیا اور مٹی کو پر نور کیا

    دریاؤں سے نور لیا اور مٹی کو پر نور کیا ہریالی کو دھرتی ماں کے ماتھے کا سندور کیا پتھر کو آکار دیا کچھ زیور شیور لاد دیا اور پھر اس دیوی کو اپنی رکشا پر مامور کیا سورج طیش میں آ کے ساری فصل جلانے والا تھا ابر کی تلخ کلامی نے اس مٹی کو کافور کیا آزر سنگ تراشی چھوڑ کے شیشہ گر بن ...

    مزید پڑھیے

    زمیں تا آسماں دھواں دھواں دھواں

    زمیں تا آسماں دھواں دھواں دھواں دھواں فقط دھواں دھواں دھواں دھواں بس ایک بوسۂ زمین و مشتری تمام کہکشاں دھواں دھواں دھواں یقین در یقین آگ صرف آگ گمان در گماں دھواں دھواں دھواں فگار جسم و جاں لہو لہو لہو قرار جسم و جاں دھواں دھواں دھواں حریم با اثر طلسم رنگ و بو بہشت بے کراں ...

    مزید پڑھیے

    ببول کر دیا بدن جواں رتوں کی چاہ نے

    ببول کر دیا بدن جواں رتوں کی چاہ نے جلا دیا گلاب کو چمن کی سرد آہ نے ستم ظریف یوں عدالتوں میں چپ کھڑے ہیں سب کہ جیسے سی لیے ہوں لب ثبوت نے گواہ نے کسی کو خاص منزلوں کا شوق عام کر گیا کسی کو خاص کر دیا ہے عام شاہراہ نے نگاہ بے زبان نے گرا دیا زمین پر چڑھا دیا ہے دار پر زبان بے نگاہ ...

    مزید پڑھیے

    اکلوتی جاگیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں

    اکلوتی جاگیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں ہم تیری تصویر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں بیٹھے بیٹھے آزادی کے خواب سجاتے رہتے ہیں پھر پیروں کی زنجیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں کاغذ پر پیچیدہ مصرعوں کی بھر مار لگا دیتے ہیں پھر دیوان میر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ...

    مزید پڑھیے