دنیائے ہست و بود سے آگے کی بات کر

دنیائے ہست و بود سے آگے کی بات کر
اے روح اب وجود سے آگے کی بات کر


مجھ کو کتاب کن کا ہر اک باب حفظ ہے
تو عاد اور ثمود سے آگے کی بات کر


مجھ کو فراز عشق بتا واعظ عزیز
اب زہد سے سجود سے آگے کی بات کر


اس دور میں شہید کے وارث کو مال دے
پھر شاہد و شہود سے آگے کی بات کر


لب کھول علم و فن کے خزانے لٹا فقیر
اس ملتجی نمود سے آگے کی بات کر


احرامؔ زندگی کا بھروسہ نہیں کوئی
کچھ تو زیان و سود سے آگے کی بات کر