جب سے مدھم مری قسمت کے ستارے ہوئے ہیں
جب سے مدھم مری قسمت کے ستارے ہوئے ہیں
نفع کے نام پہ بھی مجھ کو خسارے ہوئے ہیں
ایک تم ہو کہ مقدر کے سکندر ٹھہرے
ایک ہم ہیں کہ جو حالات کے مارے ہوئے ہیں
بھول جاتے ہیں ہر اک داغ جگر عید کے دن
پر وہ لمحے جو ترے ساتھ گزارے ہوئے ہیں
ایک جھپکی میں ہی ممکن ہے کہ کنکر بن جائیں
یہ جو کچھ لوگ تری آنکھ کے تارے ہوئے ہیں
بات کچھ یوں ہے کہ کچھ یاد نہیں ہے ہم کو
ہاں مگر رات کو رخصت جو ستارے ہوئے ہیں
یہ ستارے تری تشبیہ کے قابل نہیں ہیں
یہ ستارے تو ترے سر کے اتارے ہوئے ہیں
کیا ہمیں بھی کوئی آئینہ بنا سکتا ہے
ہم نے صحرا میں کئی سال گزارے ہوئے ہیں
وقت مل جائے تو ہم پر بھی کرم کر دینا
کب سے دامن تری چوکھٹ پہ پسارے ہوئے ہیں