بے کرانی تھی پس باب مقفل قید تھا

بے کرانی تھی پس باب مقفل قید تھا
عشق کا مارا کسی غم میں مسلسل قید تھا


وہ حریم دل سے باہر تھا مگر اس کا خیال
دل کے اندر ہی کسی خانے میں بیکل قید تھا


آخرش اس کو بھی اب سولی پہ لٹکایا گیا
زندگی بھر جو پس دیوار مقتل قید تھا


مثل برکش زندگی جیتا تھا رہا در یتیم
وہ رہائی کے دنوں میں بھی مکمل قید تھا


ایک پل بس ایک پل دیکھا تھا اس مہتاب کو
آنکھ کے پردے میں بس وہ ایک ہی پل قید تھا