Sarvat Husain

ثروت حسین

ثروت حسین کی غزل

    فرات فاصلہ سے دجلۂ دعا سے ادھر

    فرات فاصلہ سے دجلۂ دعا سے ادھر کوئی پکارتا ہے دشت نینوا سے ادھر کسی کی نیم نگاہی کا جل رہا ہے چراغ نگار خانۂ آغاز و انتہا سے ادھر میں آگ دیکھتا تھا آگ سے جدا کر کے بلا کا رنگ تھا رنگینیٔ قبا سے ادھر میں راکھ ہو گیا طاؤس رنگ کو چھو کر عجیب رقص تھا دیوار پیش پا سے ادھر زمین میرے ...

    مزید پڑھیے

    وہ میرے سامنے ملبوس کیا بدلنے لگا

    وہ میرے سامنے ملبوس کیا بدلنے لگا نگار خانۂ ابر و ہوا بدلنے لگا تہ زمین کسی اژدہے نے جنبش کی بساط خاک پہ منظر مرا بدلنے لگا یہ کون اترا پئے گشت اپنی مسند سے اور انتظام مکان و سرا بدلنے لگا ہوا ہے کون نمودار تین سمتوں سے کہ اندروں کا جزیرہ نما بدلنے لگا یہ کیسے دن ہیں ہماری ...

    مزید پڑھیے

    سفینہ رکھتا ہوں درکار اک سمندر ہے

    سفینہ رکھتا ہوں درکار اک سمندر ہے ہوائیں کہتی ہیں اس پار اک سمندر ہے میں ایک لہر ہوں اپنے مکان میں اور پھر ہجوم کوچہ و بازار اک سمندر ہے یہ میرا دل ہے مرا آئینہ ہے شہزادی اور آئینے میں گرفتار اک سمندر ہے کہاں وہ پیرہن سرخ اور کہاں وہ بدن کہ عکس ماہ سے بے دار اک سمندر ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    یک بیک منظر ہستی کا نیا ہو جانا

    یک بیک منظر ہستی کا نیا ہو جانا دھوپ میں سرمئی مٹی کا ہرا ہو جانا صبح کے شہر میں اک شور ہے شادابی کا گل دیوار، ذرا بوسہ نما ہو جانا کوئی اقلیم نہیں میرے تصرف میں مگر مجھ کو آتا ہے بہت فرماں روا ہو جانا زشت اور خوب کے مابین جلایا میں نے جس گل سرخ کو تھا شعلہ نما ہو جانا چشم کا ...

    مزید پڑھیے

    کتاب سبز و در داستان بند کیے

    کتاب سبز و در داستان بند کیے وہ آنکھ سو گئی خوابوں کو ارجمند کیے گزر گیا ہے وہ سیلاب آتش امروز بغیر خیمہ و خاشاک کو گزند کیے بہت مصر تھے خدایان ثابت و سیار سو میں نے آئنہ و آسماں پسند کیے اسی جزیرۂ جائے نماز پر ثروتؔ زمانہ ہو گیا دست دعا بلند کیے

    مزید پڑھیے

    میں جو گزرا سلام کرنے لگا

    میں جو گزرا سلام کرنے لگا پیڑ مجھ سے کلام کرنے لگا دیکھ اے نوجوان میں تجھ پر اپنی چاہت تمام کرنے لگا کیوں کسی شب چراغ کی خاطر اپنی نیندیں حرام کرنے لگا سوچتا ہوں دیار بے پروا کیوں مرا احترام کرنے لگا عمر یک روز کم نہیں ثروتؔ کیوں تلاش دوام کرنے لگا

    مزید پڑھیے

    ہوا و ابر کو آسودۂ مفہوم کر دیکھوں

    ہوا و ابر کو آسودۂ مفہوم کر دیکھوں شروع فصل گل ہے ان لبوں کو چوم کر دیکھوں کہاں کس آئنے میں کون سا چہرہ دمکتا ہے ذرا حیرت سرائے آب و گل میں گھوم کر دیکھوں مرے سینے میں دل ہے یا کوئی شہزادۂ خود سر کسی دن اس کو تاج و تخت سے محروم کر دیکھوں گزر گاہیں جہاں پر ختم ہوتی ہیں وہاں کیا ...

    مزید پڑھیے

    پہنائے بر و بحر کے محشر سے نکل کر

    پہنائے بر و بحر کے محشر سے نکل کر دیکھوں کبھی موجود و میسر سے نکل کر آئے کوئی طوفان گزر جائے کوئی سیل اک شعلۂ بے تاب ہوں پتھر سے نکل کر آنکھوں میں دمک اٹھی ہے تصویر در و بام یہ کون گیا میرے برابر سے نکل کر تا دیر رہا ذائقۂ مرگ لبوں پر اک نیند کے ٹوٹے ہوئے منظر سے نکل کر ہر رنگ ...

    مزید پڑھیے

    آئے ہیں رنگ بحالی پر

    آئے ہیں رنگ بحالی پر رکھتا ہوں قدم ہریالی پر اک سورج میری مٹھی میں اک سورج ہل کی پھالی پر وہی ایک چراغ دمکتا ہے گندم کی بالی بالی پر دل دکھتا ہے دل روتا ہے اک پتے کی پامالی پر کسی ان داتا پر گر جاتا اک سکہ کاسۂ خالی پر کوئی نور ظہور کرے ثروتؔ اسی حمد الحمد کی جالی پر

    مزید پڑھیے

    پھر وہ برسات دھیان میں آئی

    پھر وہ برسات دھیان میں آئی تب کہیں جان جان میں آئی پھول پانی میں گر پڑے سارے اچھی جنبش چٹان میں آئی روشنی کا اتا پتا لینے شب تیرہ جہان میں آئی رقص سیارگاں کی منزل بھی سفر خاک دان میں آئی

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4