ہوا و ابر کو آسودۂ مفہوم کر دیکھوں

ہوا و ابر کو آسودۂ مفہوم کر دیکھوں
شروع فصل گل ہے ان لبوں کو چوم کر دیکھوں


کہاں کس آئنے میں کون سا چہرہ دمکتا ہے
ذرا حیرت سرائے آب و گل میں گھوم کر دیکھوں


مرے سینے میں دل ہے یا کوئی شہزادۂ خود سر
کسی دن اس کو تاج و تخت سے محروم کر دیکھوں


گزر گاہیں جہاں پر ختم ہوتی ہیں وہاں کیا ہے
کوئی رہرو پلٹ کر آئے تو معلوم کر دیکھوں


بہت دن دشت و در میں خاک اڑاتے ہوئے ثروتؔ
اب اپنے صحن میں اپنی فضا میں جھوم کر دیکھوں