کتاب سبز و در داستان بند کیے

کتاب سبز و در داستان بند کیے
وہ آنکھ سو گئی خوابوں کو ارجمند کیے


گزر گیا ہے وہ سیلاب آتش امروز
بغیر خیمہ و خاشاک کو گزند کیے


بہت مصر تھے خدایان ثابت و سیار
سو میں نے آئنہ و آسماں پسند کیے


اسی جزیرۂ جائے نماز پر ثروتؔ
زمانہ ہو گیا دست دعا بلند کیے