Sarvat Husain

ثروت حسین

ثروت حسین کی غزل

    دیکھا جو اس طرف تو بدن پر نظر گئی

    دیکھا جو اس طرف تو بدن پر نظر گئی اک آگ تھی جو میرے پیالے میں بھر گئی ان راستوں میں نام و نسب کا نشاں نہ تھا ہنگامۂ بہار میں خلقت جدھر گئی اک داستان اب بھی سناتے ہیں فرش و بام وہ کون تھی جو رقص کے عالم میں مر گئی اتنا قریب پا کے اسے دم بخود تھا میں ایسا لگا زمین کی گردش ٹھہر گئی

    مزید پڑھیے

    کبھی تیغ تیز سپرد کی کبھی تحفۂ گل تر دیا

    کبھی تیغ تیز سپرد کی کبھی تحفۂ گل تر دیا کسی شاہ زادی کے عشق نے مرا دل ستاروں سے بھر دیا یہ جو روشنی ہے کلام میں کہ برس رہی ہے تمام میں مجھے صبر نے یہ ثمر دیا مجھے ضبط نے یہ ہنر دیا زمیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا نیا شہر ایک بساؤں گا! مرے بخت نے مرے عہد نے مجھے اختیار اگر دیا کسی زخم ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں سوغات سمیٹے اپنے گھر آتے ہیں

    آنکھوں میں سوغات سمیٹے اپنے گھر آتے ہیں بجرے لاگے بندر گاہ پہ سوداگر آتے ہیں زرد زبور تلاوت کرتی ہے تصویر خزاں کی عین بہار میں کیسے کیسے خواب نظر آتے ہیں گندم اور گلابوں جیسے خواب شکستہ کرتے دور دراز زمینوں والے شہر میں در آتے ہیں شہزادی تجھے کون بتائے تیرے چراغ کدے تک کتنی ...

    مزید پڑھیے

    یہ ہونٹ ترے ریشم ایسے

    یہ ہونٹ ترے ریشم ایسے کھلتے ہیں شگوفے کم ایسے یہ باغ چراغ سی تنہائی یہ ساتھ گل و شبنم ایسے مری دھوپ میں آنے سے پہلے کبھی دیکھے تھے موسم ایسے کس فصل میں کب یکجا ہوں گے سامان ہوئے ہیں بہم ایسے سینے میں آگ جہنم سی اور جھونکے باغ ارم ایسے

    مزید پڑھیے

    یہ جو پھوٹ بہا ہے دریا پھر نہیں ہوگا

    یہ جو پھوٹ بہا ہے دریا پھر نہیں ہوگا روئے زمیں پر منظر ایسا پھر نہیں ہوگا زرد گلاب اور آئینوں کو چاہنے والی ایسی دھوپ اور ایسا سویرا پھر نہیں ہوگا گھائل پنچھی تیری کنج میں آن گرا ہے اس پنچھی کا دوسرا پھیرا پھر نہیں ہوگا میں نے خود کو جمع کیا پچیس برس میں یہ سامان تو مجھ سے یکجا ...

    مزید پڑھیے

    گدائے شہر آئندہ تہی کاسہ ملے گا

    گدائے شہر آئندہ تہی کاسہ ملے گا تجاوز اور تنہائی کی حد پر کیا ملے گا سیاہی پھیرتی جاتی ہیں راتیں بحر و بر پہ انہی تاریکیوں سے مجھ کو بھی حصہ ملے گا میں اپنی پیاس کے ہم راہ مشکیزہ اٹھائے کہ ان سیراب لوگوں میں کوئی پیاسا ملے گا روایت ہے کہ آبائی مکانوں پر ستارہ بہت روشن مگر ...

    مزید پڑھیے

    پورے چاند کی سج دھج ہے شہزادوں والی

    پورے چاند کی سج دھج ہے شہزادوں والی کیسی عجیب گھڑی ہے نیک ارادوں والی نئی نئی سی آگ ہے یا پھر کون ہے وہ پیلے پھولوں گہرے سرخ لبادوں والی بھری رہیں یہ گلیاں پھول پرندوں سے سجی رہے تاروں سے طاق مرادوں والی آنکھیں ہیں اور دھول بھرا سناٹا ہے گزر گئی ہے عجب سواری یادوں والی

    مزید پڑھیے

    تھامی ہوئی ہے کاہکشاں اپنے ہاتھ سے

    تھامی ہوئی ہے کاہکشاں اپنے ہاتھ سے تعمیر کر رہا ہوں مکاں اپنے ہاتھ سے آیا ہوں وہ زمین و شجر ڈھونڈتا ہوا کھینچی تھی اک لکیر جہاں اپنے ہاتھ سے حسن بہار مجھ کو مکمل نہیں لگا میں نے تراش لی ہے خزاں اپنے ہاتھ سے آئینے کا حضور سمندر لگا مجھے کاٹا ہے میں نے سیل گراں اپنے ہاتھ ...

    مزید پڑھیے

    صبح کے شور میں ناموں کی فراوانی میں

    صبح کے شور میں ناموں کی فراوانی میں عشق کرتا ہوں اسی بے سر و سامانی میں سورما جس کے کناروں سے پلٹ آتے ہیں میں نے کشتی کو اتارا ہے اسی پانی میں صوفیہ، تم سے ملاقات کروں گا اک روز کسی سیارے کی جلتی ہوئی عریانی میں میں نے انگور کی بیلوں میں تجھے چوم لیا کر دیا اور اضافہ تری حیرانی ...

    مزید پڑھیے

    قسم اس آگ اور پانی کی

    قسم اس آگ اور پانی کی موت اچھی ہے بس جوانی کی اور بھی ہیں روایتیں لیکن اک روایت ہے خوں فشانی کی جسے انجام تم سمجھتی ہو ابتدا ہے کسی کہانی کی رنج کی ریت ہے کناروں پر موج گزری تھی شادمانی کی چوم لیں میری انگلیاں ثروتؔ اس نے اتنی تو مہربانی کی

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4