Sarmad Sahbai

سرمد صہبائی

ممتاز جدید پاکستانی شاعر اور ڈرامہ نگار

A leading modern Urdu poet and playwright from Pakistan.

سرمد صہبائی کی غزل

    دم جنوں کی حد انتہا پہ ٹھہرا ہے

    دم جنوں کی حد انتہا پہ ٹھہرا ہے یہ میرا دل ہے ابھی ابتدا پہ ٹھہرا ہے اسی کے لمس سے آب و ہوا بدلتی ہے تمام منظر جاں اک ادا پہ ٹھہرا ہے کنار کن سے پرے ہے کہیں وجود اپنا یہ کارواں تو غبار صدا پہ ٹھہرا ہے کچھ اور دیر نمائش ہے شور و شر کی یہاں یہ اک حباب ہے موج فنا پہ ٹھہرا ہے شعاع صبح ...

    مزید پڑھیے

    کون ہے کس نے پکارا ہے صدا کیسے ہوئی

    کون ہے کس نے پکارا ہے صدا کیسے ہوئی یہ کرن تاریکئ شب سے رہا کیسے ہوئی ایک اک پل میں اتر کر سوچتا رہتا ہوں میں نور کس کا ہے مرے خوں میں ضیا کیسے ہوئی خواہشیں آئیں کہاں سے کیوں اچھلتا ہے لہو رت ہری کیونکر ہوئی پاگل ہوا کیسے ہوئی اس کے جانے کا یقیں تو ہے مگر الجھن میں ہوں پھول کے ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں سے پرے نیند کی رفتار میں رہنا

    آنکھوں سے پرے نیند کی رفتار میں رہنا ہر پل کسی نادید کے دیدار میں رہنا کھو جانا اسے دیکھ کے عریاں کے سفر میں چھوتے ہی اسے ھجلہ اسرار میں رہنا اک خواب دریدہ کو رگ حرف سے سینا پھر لے کے اسے کوچہ و بازار میں رہنا خود اپنے کو ہی دیکھ کے حیران سا ہونا نرگس کی طرح موسم بیمار میں ...

    مزید پڑھیے

    بے دلی میں بھی دل بڑا رکھنا

    بے دلی میں بھی دل بڑا رکھنا یہ دریچہ سدا کھلا رکھنا رات کے سحر میں ہے سارا نگر اپنے گھر کا دیا جلا رکھنا یہ گھڑی صبر آزما ہوگی زندہ رہنے کا حوصلہ رکھنا ساری خوشیاں وفا نہیں کرتیں درد سے دل کو آشنا رکھنا بھول کر بھی نہ دل پہ میل آئے آئنہ یہ سدا دھلا رکھنا سینچ کر خوں سے ایک اک ...

    مزید پڑھیے

    وہی زمین وہی سر پہ آسماں نکلا

    وہی زمین وہی سر پہ آسماں نکلا سفر کے پار بھی اک دشت رائیگاں نکلا جو اس کو دیکھا تو تصویر بن گئیں آنکھیں یہ جاگتا ہوا پل خواب بے کراں نکلا رواں تھے ہم تو سفر پر چراغ ہوش لیے مگر ثبات جہاں کار ناگہاں نکلا اڑی قبائے سکندر غبار نسیاں میں طلوع ساغر جم شعلۂ گماں نکلا کہیں تھا شور ...

    مزید پڑھیے

    سر جھکا لیتا تھا پہلے جس کو اکثر دیکھ کر

    سر جھکا لیتا تھا پہلے جس کو اکثر دیکھ کر آج پاگل ہو گیا اس کو برابر دیکھ کر خواہشوں میں بہہ گیا کمزور مٹی کا حصار جسم قطرے میں سمٹ آیا سمندر دیکھ کر سوچتا ہوں رات کے اندھے سفر کے موڑ پر چاند گھبرایا تو ہوگا خالی بستر دیکھ کر آنکھ کھلتے ہی ہر اک لمحے میں میرا عکس تھا میں بکھر ...

    مزید پڑھیے

    نیند سے جاگی ہوئی آنکھوں کو اندھا کر دیا

    نیند سے جاگی ہوئی آنکھوں کو اندھا کر دیا دھند نے شفاف آئینوں کو دھندلا کر دیا جوڑتا رہتا ہوں ٹوٹے رابطوں کا فاصلہ مجھ کو لمحوں کے سرابوں نے اکیلا کر دیا چیختا پھرتا ہے سڑکوں پر صداؤں کا ہجوم کس خموشی نے گلی کوچوں کو بہرا کر دیا ہر صدا ٹکرا کے بے حس خامشی سے گر پڑی ہر صدا نے ...

    مزید پڑھیے

    حصار ہوش میں خوابوں کے در رکھے گئے ہیں

    حصار ہوش میں خوابوں کے در رکھے گئے ہیں کوئی رستہ نہیں ہے اور سفر رکھے گئے ہیں گہر آتا ہے آغوش صدف میں بوند بن کر زمین و آسماں میں نامہ بر رکھے گئے ہیں بسنتی دھوپ آنگن میں سمٹ کر سو رہی ہے ہوا کے دوش پر پیڑوں کے سر رکھے گئے ہیں ازل سے بھاگتا ہوں اپنے ہی سائے کے پیچھے تعاقب میں مرے ...

    مزید پڑھیے

    روشنی رنگوں میں سمٹا ہوا دھوکا ہی نہ ہو

    روشنی رنگوں میں سمٹا ہوا دھوکا ہی نہ ہو میں جسے جسم سمجھتا ہوں وہ سایا ہی نہ ہو آئینہ ٹوٹ گیا چنتا ہوں ریزہ ریزہ اسی آئینے میں میرا کہیں چہرہ ہی نہ ہو میں تو دیوار کے اس پار رواں ہوں کب سے کوئی دیوار کے اس پار بھی چلتا ہی نہ ہو وہ جو سنتا ہے مری بات بڑے غور کے ساتھ بعد جانے کے مرے ...

    مزید پڑھیے

    ہر سفر کے بعد ویسا ہی سفر رکھا گیا

    ہر سفر کے بعد ویسا ہی سفر رکھا گیا اور پھر مقسوم میرا در بدر رکھا گیا عرصۂ دشت طلب کو انتہا بخشی گئی مہلت عمر رواں کو مختصر رکھا گیا ہم کہاں سینے کی تہ میں یہ سمندر تھامتے ایک اس خاطر تجھے اے چشم تر رکھا گیا حاصل جاں پر خس و خاشاک حسرت کھینچ کر درمیاں اس دل کے خواہش کا شرر رکھا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2