حصار ہوش میں خوابوں کے در رکھے گئے ہیں
حصار ہوش میں خوابوں کے در رکھے گئے ہیں
کوئی رستہ نہیں ہے اور سفر رکھے گئے ہیں
گہر آتا ہے آغوش صدف میں بوند بن کر
زمین و آسماں میں نامہ بر رکھے گئے ہیں
بسنتی دھوپ آنگن میں سمٹ کر سو رہی ہے
ہوا کے دوش پر پیڑوں کے سر رکھے گئے ہیں
ازل سے بھاگتا ہوں اپنے ہی سائے کے پیچھے
تعاقب میں مرے شام و سحر رکھے گئے ہیں
یہ کیسا کھیل ہے دشوار جینے کے جتن ہیں
مگر مرنے کے گر آسان تر رکھے گئے ہیں
ادا ہوں گے ہماری بے بہا لا حاصلی میں
وہ سارے قرض جو اس جان پر رکھے گئے ہیں
چڑھا ہے دن نکل آئے ہیں بازاروں میں سائے
مگر جو جسم تھے سارے وہ گھر رکھے گئے ہیں
چنا ہے ریزہ ریزہ ہم نے اپنی خواہشوں کو
یہ ٹوٹے آئنے تھے جوڑ کر رکھے گئے ہیں
لکھے گا کون یا رب لذت بے اختیار اپنی
سروں پر کاتبین خیر و شر رکھے گئے ہیں
ہے تعویذ سخن کا معجزہ سرمدؔ کہ ہم پر
طلسم جاہ و منصب بے اثر رکھے گئے ہیں