آنکھوں سے پرے نیند کی رفتار میں رہنا
آنکھوں سے پرے نیند کی رفتار میں رہنا
ہر پل کسی نادید کے دیدار میں رہنا
کھو جانا اسے دیکھ کے عریاں کے سفر میں
چھوتے ہی اسے ھجلہ اسرار میں رہنا
اک خواب دریدہ کو رگ حرف سے سینا
پھر لے کے اسے کوچہ و بازار میں رہنا
خود اپنے کو ہی دیکھ کے حیران سا ہونا
نرگس کی طرح موسم بیمار میں رہنا
مرنا یوں ہی ابریشم و کمخواب ہوس میں
دم توڑ کے زندہ کبھی دیوار میں رہنا
حسرت سی لیے خلقت معصوم میں پھرنا
سازش کی طرح گردش دربار میں رہنا
ہے بخت ستاروں کا ان آنکھوں میں چمکنا
اور گل کا مقدر لب و رخسار میں رہنا
رونق سی لیے شہر کے رستوں پر بکھرنا
تنہائی کی صورت در و دیوار میں رہنا
سرمدؔ تپش نار سخن میں ہوں کہ مجھ کو
گل کرتا رہا شعلہ و انگار میں رہنا