کس شخص کی تلاش میں سر پھوڑتی رہی
کس شخص کی تلاش میں سر پھوڑتی رہی سنسان جنگلوں میں ہوا چیختی رہی ماتھے پہ دھول ہاتھ میں کانٹے لیے حیات صحرا سے خوشبوؤں کا پتہ پوچھتی رہی دل بجھ گیا تو رات کی صورت تھی زندگی جب تک یہ اک چراغ رہا روشنی رہی میں آج بھی نہ اس سے کوئی بات کر سکا لفظوں کے پتھروں میں تمنا دبی رہی سنسان ...