Saqi Faruqi

ساقی فاروقی

ممتاز اوررجحان ساز جدید شاعر

One of the most prominent and trend-setter modern poets

ساقی فاروقی کی غزل

    رات اپنے خواب کی قیمت کا اندازہ ہوا

    رات اپنے خواب کی قیمت کا اندازہ ہوا یہ ستارہ نیند کی تہذیب سے پیدا ہوا ذہن کی زرخیز مٹی سے نئے چہرے اگے جو مری یادوں میں زندہ ہے سراسیمہ ہوا میری آنکھوں میں انوکھے جرم کی تجویز تھی صرف دیکھا تھا اسے اس کا بدن میلا ہوا وہ کوئی خوش بو ہے میری سانس میں بہتی ہوئی میں کوئی آنسو ہوں ...

    مزید پڑھیے

    وہی آنکھوں میں اور آنکھوں سے پوشیدہ بھی رہتا ہے

    وہی آنکھوں میں اور آنکھوں سے پوشیدہ بھی رہتا ہے مری یادوں میں اک بھولا ہوا چہرا بھی رہتا ہے جب اس کی سرد مہری دیکھتا ہوں بجھنے لگتا ہوں مجھے اپنی اداکاری کا اندازہ بھی رہتا ہے میں ان سے بھی ملا کرتا ہوں جن سے دل نہیں ملتا مگر خود سے بچھڑ جانے کا اندیشہ بھی رہتا ہے جو ممکن ہو تو ...

    مزید پڑھیے

    مجھے خبر تھی مرا انتظار گھر میں رہا

    مجھے خبر تھی مرا انتظار گھر میں رہا یہ حادثہ تھا کہ میں عمر بھر سفر میں رہا میں رقص کرتا رہا ساری عمر وحشت میں ہزار حلقۂ زنجیر بام و در میں رہا ترے فراق کی قیمت ہمارے پاس نہ تھی ترے وصال کا سودا ہمارے سر میں رہا یہ آگ ساتھ نہ ہوتی تو راکھ ہو جاتے عجیب رنگ ترے نام سے ہنر میں ...

    مزید پڑھیے

    باد نسیاں ہے مرا نام بتا دو کوئی

    باد نسیاں ہے مرا نام بتا دو کوئی ڈھونڈ کر لاؤ مجھے میرا پتا دو کوئی حادثہ ہے کہ ستاروں سے مجھے وحشت ہے مجھ کو اس دشت کے آداب سکھا دو کوئی وہ اندھیرا ہے کہ تنہائی سے ہول آتا ہے سارے بچھڑے ہوئے لوگوں کو صدا دو کوئی ایک مدت سے چراغوں کی طرح جلتی ہیں ان ترستی ہوئی آنکھوں کو بجھا دو ...

    مزید پڑھیے

    یہ کون آیا شبستاں کے خواب پہنے ہوئے

    یہ کون آیا شبستاں کے خواب پہنے ہوئے ستارے اوڑھے ہوئے ماہتاب پہنے ہوئے تمام جسم کی عریانیاں تھیں آنکھوں میں وہ میری روح میں اترا حجاب پہنے ہوئے مجھے کہیں کوئی چشمہ نظر نہیں آیا ہزار دشت پڑے تھے سراب پہنے ہوئے قدم قدم پہ تھکن ساز باز کرتی ہے سسک رہا ہوں سفر کا عذاب پہنے ...

    مزید پڑھیے

    سفر کی دھوپ میں چہرے سنہرے کر لیے ہم نے

    سفر کی دھوپ میں چہرے سنہرے کر لیے ہم نے وہ اندیشے تھے رنگ آنکھوں کے گہرے کر لیے ہم نے خدا کی طرح شاید قید ہیں اپنی صداقت میں اب اپنے گرد افسانوں کے پہرے کر لیے ہم نے زمانہ پیچ اندر پیچ تھا ہم لوگ وحشی تھے خیال آزار تھے لہجے اکہرے کر لیے ہم نے مگر ان سیپیوں میں پانیوں کا شور کیسا ...

    مزید پڑھیے

    خواب کو دن کی شکستوں کا مداوا نہ سمجھ

    خواب کو دن کی شکستوں کا مداوا نہ سمجھ نیند پر تکیہ نہ کر شب کو مسیحا نہ سمجھ ہجر کے شہر میں گلزار کہاں ملتے ہیں صبح کو دشت سمجھ شام کو ویرانہ سمجھ میں کہیں اور کا ٹوٹا ہوا تارا ہوں کوئی تو مجھے اپنے ستاروں سے الجھتا نہ سمجھ مجھ پہ کھل جا کہ مرے دل میں کوئی پیچ پڑے اپنی تنہائی کے ...

    مزید پڑھیے

    پاؤں مارا تھا پہاڑوں پہ تو پانی نکلا

    پاؤں مارا تھا پہاڑوں پہ تو پانی نکلا یہ وہی جسم کا آہن ہے کہ مٹی نکلا میرے ہمراہ وہی تہمت آزادی ہے میرا ہر عہد وہی عہد اسیری نکلا ایک چہرہ تھا کہ اب یاد نہیں آتا ہے ایک لمحہ تھا وہی جان کا بیری نکلا ایک مات ایسی ہے جو ساتھ چلی آتی ہے ورنہ ہر چال سے جیتے ہوئے بازی نکلا موج کی طرح ...

    مزید پڑھیے

    ایک دن ذہن میں آسیب پھرے گا ایسا

    ایک دن ذہن میں آسیب پھرے گا ایسا یہ سمن زار نظر آئے گا صحرا ایسا میں نے کیا رنج دیے اشک نہ لوٹائے مجھے اے مرے دل کوئی بے فیض نہ دیکھا ایسا ایک مدت سے کوئی لہر نہ اٹھی مجھ میں میری آنکھوں سے چھپا چاند کا چہرہ ایسا رات کہتی ہے ملاقات نہ ہوگی اپنی تو کوئی خواب نہ میں نیند کا ماتا ...

    مزید پڑھیے

    درد کے عتاب لے دوست اسے شمار کر

    درد کے عتاب لے دوست اسے شمار کر خون کا حساب دے زخم اختیار کر دھوپ بیچتا ہوں میں دن میں آ گیا ہوں میں چاند کے سواد میں ایک شب گزار کر یاد سے رہا نہ ہو رات سے جدا نہ ہو نیند سے خفا نہ ہو خواب انتظار کر چاندنی مدام ہو روشنی تمام ہو وصل میں قیام ہو ہجر میں دیار کر آج روح اور دل ایک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5