Saqi Faruqi

ساقی فاروقی

ممتاز اوررجحان ساز جدید شاعر

One of the most prominent and trend-setter modern poets

ساقی فاروقی کی غزل

    جو تیرے دل میں ہے وہ بات میرے دھیان میں ہے

    جو تیرے دل میں ہے وہ بات میرے دھیان میں ہے تری شکست تری لکنت زبان میں ہے ترے وصال کی خوش بو سے بڑھتی جاتی ہے نہ جانے کون سی دیوار درمیان میں ہے ہمیں تباہ کیا آب و گل کی سازش نے کہ ایک دوست ہمارا بھی آسمان میں ہے مگر یہ لوگ بھلا کس لیے اداس ہوئے یہ کیا طلسم بہاروں کی داستان میں ...

    مزید پڑھیے

    درد پرانا آنسو مانگے آنسو کہاں سے لاؤں

    درد پرانا آنسو مانگے آنسو کہاں سے لاؤں روح میں ایسی کونپل پھوٹی میں کمہلاتا جاؤں میرے اندر بیٹھا کوئی میری ہنسی اڑائے ایک پلک کو اندر جاؤں باہر بھاگا آؤں سارے موتی جھوٹے نکلے سارے جادو ٹوٹے میری خالی آنکھو بولو اب کیا خواب دکھاؤں میرا کیسے کام چلے جب نام سے کرن نہ پھوٹے اب ...

    مزید پڑھیے

    حملہ آور کوئی عقب سے ہے

    حملہ آور کوئی عقب سے ہے یہ تعاقب میں کون کب سے ہے شہر میں خواب کا رواج نہیں نیند کی ساز باز سب سے ہے لوگ لمحوں میں زندہ رہتے ہیں وقت اکیلا اسی سبب سے ہے ہم خیالوں کے مشربوں کا زوال خوف سے جبر سے طلب سے ہے شعلہ باروں کے خاندان سے ہوں روح میں روشنی نسب سے ہے

    مزید پڑھیے

    اک یاد کی موجودگی سہہ بھی نہیں سکتے

    اک یاد کی موجودگی سہہ بھی نہیں سکتے یہ بات کسی اور سے کہہ بھی نہیں سکتے تو اپنے گہن میں ہے تو میں اپنے گہن میں دو چاند ہیں اک ابر میں گہ بھی نہیں سکتے ہم جسم ہیں اور دونوں کی بنیادیں امر ہیں اب کیسے بچھڑ جائیں کہ ڈھہ بھی نہیں سکتے دریا ہوں کسی روز معاون کی طرح مل یہ کیا کہ ہم اک ...

    مزید پڑھیے

    میں وہی دشت ہمیشہ کا ترسنے والا

    میں وہی دشت ہمیشہ کا ترسنے والا تو مگر کون سا بادل ہے برسنے والا سنگ بن جانے کے آداب سکھائے میں نے دل عجب غنچۂ نورس تھا بکسنے والا حسن وہ ٹوٹتا نشہ کہ محبت مانگے خون روتا ہے مرے حال پہ ہنسنے والا رنج یہ ہے کہ ہنر مند بہت ہیں ہم بھی ورنہ وہ شعلۂ عصیاں تھا جھلسنے والا وہ خدا ہے ...

    مزید پڑھیے

    وحشت دیواروں میں چنوا رکھی ہے

    وحشت دیواروں میں چنوا رکھی ہے میں نے گھر میں وسعت صحرا رکھی ہے مجھ میں سات سمندر شور مچاتے ہیں ایک خیال نے دہشت پھیلا رکھی ہے روز آنکھوں میں جھوٹے اشک بلوتا ہوں غم کی ایک شبیہ اتروا رکھی ہے جاں رہتی ہے پیپر ویٹ کے پھولوں میں ورنہ میری میز پہ دنیا رکھی ہے خوف بہانہ ہے ساقیؔ ...

    مزید پڑھیے

    ہراس پھیل گیا ہے زمین دانوں میں

    ہراس پھیل گیا ہے زمین دانوں میں قیامتیں نظر آتی ہیں آسمانوں میں نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ان آنکھوں پر جو خواب دیکھتی تھیں خوف کے زمانوں میں یہاں خیال کے سوتوں سے خون پھوٹے گا سراب کے لیے جنگیں ہیں ساربانوں میں یہ کون ہیں کہ خدا کی لگام تھامے ہوئے پڑے ہوئے ہیں قناعت کے شامیانوں ...

    مزید پڑھیے

    باہر کے اسرار لہو کے اندر کھلتے ہیں

    باہر کے اسرار لہو کے اندر کھلتے ہیں بند آنکھوں پر کیسے کیسے منظر کھلتے ہیں اپنے اشکوں سے اپنا دل شق ہو جاتا ہے بارش کی بوچھار سے کیا کیا پتھر کھلتے ہیں لفظوں کی تقدیر بندھی ہے میرے قلم کے ساتھ ہاتھ میں آتے ہی شمشیر کے جوہر کھلتے ہیں شام کھلے تو نشے کی حد جاری ہوتی ہے تشنہ کاموں ...

    مزید پڑھیے

    زندہ رہنے کے تذکرے ہیں بہت

    زندہ رہنے کے تذکرے ہیں بہت مرنے والوں میں جی اٹھے ہیں بہت ان کی آنکھوں میں خوں اتر آیا قیدیوں پر ستم ہوئے ہیں بہت اس کے وارث نظر نہیں آئے شاید اس لاش کے پتے ہیں بہت جاگتے ہیں تو پاؤں میں زنجیر ورنہ ہم نیند میں چلے ہیں بہت جن کے سائے میں رات گزری ہے ان ستاروں نے دکھ دیے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    رات نادیدہ بلاؤں کے اثر میں ہم تھے

    رات نادیدہ بلاؤں کے اثر میں ہم تھے خوف سے سہمے ہوئے سوگ نگر میں ہم تھے پاؤں سے لپٹی ہوئی چیزوں کی زنجیریں تھیں اور مجرم کی طرح اپنے ہی گھر میں ہم تھے وہ کسی رات ادھر سے بھی گزر جائے گا خواب میں راہ گزر راہ گزر میں ہم تھے ایک لمحے کے جزیرے میں قیام ایسا تھا جیسے انجانے زمانوں کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5