ثمینہ سید کی غزل

    اک عہد کی صورت ہے کہ پیمان کی صورت

    اک عہد کی صورت ہے کہ پیمان کی صورت تو دل میں بسا رہتا ہے ایمان کی صورت لکھتی ہوں ہر اک بات گزرتی ہے جو دل پہ بن جائے گی اک روز یہ دیوان کی صورت ٹوٹا ہے ابھی تک نہ ہی ٹوٹے گا کبھی بھی رکھتی ہوں تجھے ساتھ میں اک مان کی صورت اب بن کے یقیں دل میں سمٹ آیا ہے میرے آغاز میں لگتا تھا جو ...

    مزید پڑھیے

    اداسی ختم ہو جائے اگر تم ملنے آ جاؤ (ردیف .. ٔ)

    اداسی ختم ہو جائے اگر تم ملنے آ جاؤ میرا ہر زخم سو جائے اگر تم ملنے آ جاؤ شب ہجراں کے ماتھے پر سویرے پھر سے روشن ہوں یہ رت گجرے پرو جائے اگر تم ملنے آ جاؤ تمہارے قرب کے لمحے میسر ہم کو آ جائیں یہ دل رنگوں میں کھو جائے اگر تم ملنے آ جاؤ ستارا بخت کا اپنا بلندی پر نظر آئے زمیں ...

    مزید پڑھیے

    تجھ کو رکھتی ہوں اپنی سوچوں میں

    تجھ کو رکھتی ہوں اپنی سوچوں میں پھول کھلتے ہیں کتنے رستوں میں واپسی کی نہیں ہے راہ کوئی جھانک بیٹھی ہوں تیری آنکھوں میں میں بھی ان کا وجود لگنے لگی ایسے کھوئی ہوں کھلتے رنگوں میں جس طرح دھوپ میں شجر کوئی اپنا لگتا ہے مجھ کو غیروں میں وہ بیاں میں تو آ نہیں سکتا اس کو لکھوں ...

    مزید پڑھیے

    دل دشت کی صورت تھا سمندر ہوا کیسے

    دل دشت کی صورت تھا سمندر ہوا کیسے سرسبز خزاں زاد مقدر ہوا کیسے چھاؤں میں ڈھلا کیسے تمازت بھرا موسم پھولوں سے بھی نازک مرا پیکر ہوا کیسے پھرتی تھی تمناؤں بھری شال لپیٹے پھر جذبۂ گمنام اجاگر ہوا کیسے مدت سے یہ الجھی ہوئی گتھی نہیں سلجھی وہ مجھ میں سمایا تھا تو بے گھر ہوا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2