دل دشت کی صورت تھا سمندر ہوا کیسے
دل دشت کی صورت تھا سمندر ہوا کیسے
سرسبز خزاں زاد مقدر ہوا کیسے
چھاؤں میں ڈھلا کیسے تمازت بھرا موسم
پھولوں سے بھی نازک مرا پیکر ہوا کیسے
پھرتی تھی تمناؤں بھری شال لپیٹے
پھر جذبۂ گمنام اجاگر ہوا کیسے
مدت سے یہ الجھی ہوئی گتھی نہیں سلجھی
وہ مجھ میں سمایا تھا تو بے گھر ہوا کیسے
اک عمر کسی پل جو مرے ہاتھ نا آیا
وہ خواب سا احساس مسخر ہوا کیسے
اک راز جو ہم راز رہا برسوں ثمینہؔ
اب سوچتی ہوں فاش جہاں پر ہوا کیسے