تجھ کو رکھتی ہوں اپنی سوچوں میں
تجھ کو رکھتی ہوں اپنی سوچوں میں
پھول کھلتے ہیں کتنے رستوں میں
واپسی کی نہیں ہے راہ کوئی
جھانک بیٹھی ہوں تیری آنکھوں میں
میں بھی ان کا وجود لگنے لگی
ایسے کھوئی ہوں کھلتے رنگوں میں
جس طرح دھوپ میں شجر کوئی
اپنا لگتا ہے مجھ کو غیروں میں
وہ بیاں میں تو آ نہیں سکتا
اس کو لکھوں بھلا کیا لفظوں میں
نیند میری تو لے گیا کوئی
کیسے دیکھوں میں اس کو خوابوں میں
آسماں والے کچھ خبر بھی ہے
بھوک اگنے لگی ہے کھیتوں میں
کون سنتا ہے حال دل سیدؔ
لوگ بہرے ہیں سارے شہروں میں