Samal Baloch

سمل بلوچ

سمل بلوچ کی نظم

    پر اسرار

    جانے کتنے دکھ ہیں ان چہروں کے پیچھے جن کو سکھ بانٹتے میں نے دیکھا ہے جانے کتنی خوشیوں کے ہیں رنگ ان بولتی آنکھوں میں جو ہر لمحہ خاموش رہیں جانے کیسی گدلاہٹ ہے ان روحوں میں جن کی اجلی گہرائی میں ایک زمانہ ڈوب گیا

    مزید پڑھیے

    میری نظمیں

    ہم جو نا معلوم ازل اور لامتناہی ابد کے بیچ میں ہوتے ہیں ہم جو گزرنے والے ہیں ہم کو باقی رہ جانے کی فکر بھی کیوں لاحق رہتی ہے لوگ بھلا دیں گے اس ڈر سے میری بھی کچھ نظمیں ہیں قرطاس پہ جو تحریر ہوئیں لیکن یہ بھی جانتی ہوں میں میری قبر کے کتبے پر بھی شاید میرا نام نہ ہوگا

    مزید پڑھیے

    قیدی

    ہم سب اپنے اپنے عقیدوں کے قیدی ہیں جو کچھ ہم نے سمجھا اس کو بوجھ لیا ہے جو کچھ ہم نے دیکھا اس کو جان لیا ہے جو کچھ ہم نے چاہا اس کو مان لیا ہے ہم کب سوچ بھی سکتے ہیں دیوار سے آگے چھید کیے سینوں میں ہم نے اپنے عقیدوں کے خنجر سے ہم نے دلوں میں زہر بھرا ہے ہم نے فصیلوں کی دھاروں سے خود ...

    مزید پڑھیے

    چے گویرا

    اپنے قد سے بڑے بھی تو ہو سکتے ہیں لوگ وہ جن کا ہے کردار بلند ان کے افکار سے بھی لوگ جو اپنی سچائی میں سچ سے زیادہ ممکن ہیں لوگ جو اپنے ہونے سے بھی بڑھ کر اپنے وجود کی نیک گواہی دینے والے ہیں

    مزید پڑھیے

    ارون دھتی رائے کے لئے

    تم نے سوچا مدھم لفظوں کی دستک سے در کھلتے ہیں روشن اور آباد زبانوں کی جانب تم نے سوچا تہذیبوں کے جرم بتانے سے انسان برا ہوتا ہے تم نے سمجھا سچ کہہ دینا کافی ہے ہر جھوٹ کے آگے لیکن سچ کہہ دینے سے بھی کیا بدلے گا وقت زمانہ تہذیبیں لے آئیں گی اک جھوٹ نیا اور سچ کو پرانا فیشن جان کے لوگ ...

    مزید پڑھیے