قیدی

ہم سب اپنے اپنے عقیدوں کے قیدی ہیں
جو کچھ ہم نے سمجھا اس کو بوجھ لیا ہے
جو کچھ ہم نے دیکھا اس کو جان لیا ہے
جو کچھ ہم نے چاہا اس کو مان لیا ہے
ہم کب سوچ بھی سکتے ہیں دیوار سے آگے


چھید کیے سینوں میں ہم نے اپنے عقیدوں کے خنجر سے
ہم نے دلوں میں زہر بھرا ہے
ہم نے فصیلوں کی دھاروں سے خود کو بھی تو کاٹ دیا ہے
ہم سب اپنے اپنے عقیدوں کے قیدی ہیں