ارون دھتی رائے کے لئے
تم نے سوچا مدھم لفظوں کی دستک سے در کھلتے ہیں
روشن اور آباد زبانوں کی جانب
تم نے سوچا تہذیبوں کے جرم بتانے سے
انسان برا ہوتا ہے
تم نے سمجھا سچ کہہ دینا کافی ہے ہر جھوٹ کے آگے
لیکن سچ کہہ دینے سے بھی کیا بدلے گا
وقت زمانہ تہذیبیں لے آئیں گی اک جھوٹ نیا
اور سچ کو پرانا فیشن جان کے لوگ بھلا دیں گے تم کو
یوں لگتا ہے کھل جائے گی تیز ہوا سے
سلوٹ ان موجوں کی جن کو
ریت کے ٹیلوں نے ترتیب دیا ہے ساحل پر
یوں لگتا ہے ریزہ ریزہ کرن کرن بکھرے گا سورج
رنگوں کی برسات ہے اجلے پانی میں
یوں لگتا ہے
گونج اٹھے گا نغمہ کوئی
رک جائیں گے بہتے بہتے سب یک دار روانی میں