پر اسرار
جانے کتنے دکھ ہیں ان چہروں کے پیچھے جن کو سکھ بانٹتے میں نے دیکھا ہے جانے کتنی خوشیوں کے ہیں رنگ ان بولتی آنکھوں میں جو ہر لمحہ خاموش رہیں جانے کیسی گدلاہٹ ہے ان روحوں میں جن کی اجلی گہرائی میں ایک زمانہ ڈوب گیا
جانے کتنے دکھ ہیں ان چہروں کے پیچھے جن کو سکھ بانٹتے میں نے دیکھا ہے جانے کتنی خوشیوں کے ہیں رنگ ان بولتی آنکھوں میں جو ہر لمحہ خاموش رہیں جانے کیسی گدلاہٹ ہے ان روحوں میں جن کی اجلی گہرائی میں ایک زمانہ ڈوب گیا
ہم جو نا معلوم ازل اور لامتناہی ابد کے بیچ میں ہوتے ہیں ہم جو گزرنے والے ہیں ہم کو باقی رہ جانے کی فکر بھی کیوں لاحق رہتی ہے لوگ بھلا دیں گے اس ڈر سے میری بھی کچھ نظمیں ہیں قرطاس پہ جو تحریر ہوئیں لیکن یہ بھی جانتی ہوں میں میری قبر کے کتبے پر بھی شاید میرا نام نہ ہوگا
ہم سب اپنے اپنے عقیدوں کے قیدی ہیں جو کچھ ہم نے سمجھا اس کو بوجھ لیا ہے جو کچھ ہم نے دیکھا اس کو جان لیا ہے جو کچھ ہم نے چاہا اس کو مان لیا ہے ہم کب سوچ بھی سکتے ہیں دیوار سے آگے چھید کیے سینوں میں ہم نے اپنے عقیدوں کے خنجر سے ہم نے دلوں میں زہر بھرا ہے ہم نے فصیلوں کی دھاروں سے خود ...
اپنے قد سے بڑے بھی تو ہو سکتے ہیں لوگ وہ جن کا ہے کردار بلند ان کے افکار سے بھی لوگ جو اپنی سچائی میں سچ سے زیادہ ممکن ہیں لوگ جو اپنے ہونے سے بھی بڑھ کر اپنے وجود کی نیک گواہی دینے والے ہیں
تم نے سوچا مدھم لفظوں کی دستک سے در کھلتے ہیں روشن اور آباد زبانوں کی جانب تم نے سوچا تہذیبوں کے جرم بتانے سے انسان برا ہوتا ہے تم نے سمجھا سچ کہہ دینا کافی ہے ہر جھوٹ کے آگے لیکن سچ کہہ دینے سے بھی کیا بدلے گا وقت زمانہ تہذیبیں لے آئیں گی اک جھوٹ نیا اور سچ کو پرانا فیشن جان کے لوگ ...