روشن سکوت سب اسی شعلہ بیاں سے ہے
روشن سکوت سب اسی شعلہ بیاں سے ہے
اس خامشی میں دل کی توقع زباں سے ہے
خاشاک ہیں وہ برگ جو ٹوٹے شجر سے ہوں
ہم سے مسافروں کا بھرم کارواں سے ہے
احساس گمرہی سے مسافت ہے جی کا روگ
اب کے تھکن مجھے سفر رائیگاں سے ہے
یا آ کے رک گئی ہے خط تیرگی پہ آنکھ
ہے روشنی تو ٹوٹی ہوئی درمیاں سے ہے
جب تک لہو سفر میں ہے میں راستے میں ہوں
کشتی ہوا کے ساتھ کھلے بادباں سے ہے
ہے ہر برہنگی کا لبادہ پر بدن
اس خاکداں کا حسن زمان و مکاں سے ہے
صحرائے بے کنار ہی توڑے ہوا کا زور
خواہش کو خار اب کے دل سخت جان سے ہے
ہر چند میں بھی نقش گر عہد حال ہوں
تصویر خاک رہ گزر رفتگاں سے ہے