یہ فیصلہ بھی مرے دست با کمال میں تھا

یہ فیصلہ بھی مرے دست با کمال میں تھا
جو چھیننے میں مزہ ہے وہ کب سوال میں تھا


کس آفتاب کی آہٹ سے شہر جاگ اٹھا
وگرنہ میں بھی کہیں مست اپنے حال میں تھا


ترے بیاں نے دکھایا جو آئنہ تو کھلا
کہ ہر شعور مرے گوشۂ خیال میں تھا


مرے سفر کے لیے روز و شب بنے ہی نہیں
تمہیں کہو کہ میں کب قید ماہ و سال میں تھا


رگوں میں ریگ رواں تھا گریز پائی کا
لہو اسیر عجب خواہشوں کے جال میں تھا


مرے گریز نے عہد ستم کو طول دیا
یہ اقتدار تو کب سے یوں ہی زوال میں تھا


عجیب لمس کی لذت ہے میری بانہوں میں
وہی مزہ ہے جو اس خواب کے وصال میں تھا