سلیم فوز کی غزل

    کبھی اچھا برا سوچا نہیں ہے

    کبھی اچھا برا سوچا نہیں ہے محبت عقل کا سودا نہیں ہے میں پتھر ہوں مگر سچ بولتا ہوں وہ آئینہ ہے اور سچا نہیں ہے صراط عشق پر مڑ کر نہ دیکھو پلٹنے کا کوئی رستہ نہیں ہے ابھی ٹوٹا نہیں ہے خواب میرا ابھی وہ نیند سے جاگا نہیں ہے ابھی آنکھوں میں بینائی ہے باقی ابھی میں نے تمہیں دیکھا ...

    مزید پڑھیے

    جو دل پر ضرب کاری لگ رہی ہے

    جو دل پر ضرب کاری لگ رہی ہے یہ خوشبو بھی تمہاری لگ رہی ہے تمہاری یاد میں سویا ہوا ہوں بدن کو نیند پیاری لگ رہی ہے محبت ایک لمحے میں ہوئی تھی اب اس میں عمر ساری لگ رہی ہے تمہارے درد پر دل دکھ رہا ہے تمہاری جاں ہماری لگ رہی ہے مرے پہلو میں بیٹھی روئے جائے شب فرقت کی ماری لگ رہی ...

    مزید پڑھیے

    یہ روز روز کا ملنا ملانا مشکل ہے

    یہ روز روز کا ملنا ملانا مشکل ہے وہ کہہ رہا ہے کہ وعدہ نبھانا مشکل ہے لگاؤ اس سے مرے جسم و جاں کو ایسا رہا کہ یاد رکھنا ہے آساں بھلانا مشکل ہے بچھڑتے وقت مرے ہونٹ سی دیے اس نے سو آسمان کو سر پے اٹھانا مشکل ہے اب آ گئے ہو ستارے سجا کے پلکوں پر تمہیں بتا تو دیا تھا زمانہ مشکل ...

    مزید پڑھیے

    شکست دے کے مجھے دار پر سجاتا ہے

    شکست دے کے مجھے دار پر سجاتا ہے وہ اپنی جیت مری ہار پر سجاتا ہے مزاج یار تری برہمی کے دل صدقے عجیب رنگ رخ یار پر سجاتا ہے اک ایسے لمحۂ تنہائی سے میں واقف ہوں وہ جب مجھے لب و رخسار پر سجاتا ہے ترے دوانے کو تصویر مل گئی ہے تری بدل بدل کے جو دیوار پر سجاتا ہے اسے پسند نہیں موتیے کے ...

    مزید پڑھیے

    اگر ہم چھوڑ دیں عرض ہنر خاموش ہو جائیں

    اگر ہم چھوڑ دیں عرض ہنر خاموش ہو جائیں ہمارے ساتھ یہ دیوار و در خاموش ہو جائیں اسی باعث تو ہونٹوں پر سوال اب تک نہیں آیا کہیں ایسا نہ ہو یہ چارہ گر خاموش ہو جائیں طلسم بے یقینی ہر قدم پر گھیر لیتا ہے نہ جانے دھڑکنیں کس موڑ پر خاموش ہو جائیں اگر بے چہرہ آئینے کو چہرہ دے نہیں ...

    مزید پڑھیے

    جانے اس شخص کو یہ کیسا ہنر آتا ہے

    جانے اس شخص کو یہ کیسا ہنر آتا ہے رات ہوتی ہے تو آنکھوں میں اتر آتا ہے اس کی چاہت کا تو انداز جدا ہے سب سے وہ تو خوشبو کی طرح روح میں در آتا ہے بات کرتا ہے تو الفاظ مہک اٹھتے ہیں جس طرح شاخ محبت پہ ثمر آتا ہے پھول اس کے لب و رخسار پہ مر مٹتے ہیں پیار شبنم کو بہ انداز دگر آتا ...

    مزید پڑھیے

    سکوت بڑھنے لگا ہے صدا ضروری ہے

    سکوت بڑھنے لگا ہے صدا ضروری ہے کہ جیسے حبس میں تازہ ہوا ضروری ہے پھر اس کے بعد ہر اک فیصلہ سر آنکھوں پر مگر گواہ کا سچ بولنا ضروری ہے بہت قریب سے کچھ بھی نہ دیکھ پاؤ گے کہ دیکھنے کے لیے فاصلہ ضروری ہے تم اپنے بارے میں مجھ سے بھی پوچھ سکتے ہو یہ تم سے کس نے کہا آئنہ ضروری ہے گریز ...

    مزید پڑھیے

    سکوت بڑھنے لگا ہے صدا ضروری ہے

    سکوت بڑھنے لگا ہے صدا ضروری ہے کہ جیسے حبس میں تازہ ہوا ضروری ہے پھر اس کے بعد ہر اک فیصلہ سر آنکھوں پر مگر گواہ کا سچ بولنا ضروری ہے بہت قریب سے کچھ بھی نہ دیکھ پاؤ گے کہ دیکھنے کے لیے فاصلہ ضروری ہے تم اپنے بارے میں مجھ سے بھی پوچھ سکتے ہو یہ تم سے کس نے کہا آئنہ ضروری ہے گریز ...

    مزید پڑھیے

    دشوار یوں بھی نقل مکانی پڑی مجھے

    دشوار یوں بھی نقل مکانی پڑی مجھے رستے ہی سے بساط اٹھانی پڑی مجھے کچھ دن تو اس کے دل پہ رہا حکمراں مگر یہ سلطنت بھی چھوڑ کے جانی پڑی مجھے اس نے کہا کہ کیسے بکھرتا ہے آدمی مٹھی میں بھر کے خاک اڑانی پڑی مجھے اک شخص مسکرا کے مجھے دیکھنے لگا بس آئنے سے گرد ہٹانی پڑی مجھے تم کو تو ...

    مزید پڑھیے

    دور رہ بھی نہ سکوں پاس بلا بھی نہ سکوں

    دور رہ بھی نہ سکوں پاس بلا بھی نہ سکوں تو وہ اپنا ہے جسے اپنا بنا بھی نہ سکوں اے مسیحا کوئی تدبیر مسیحائی کی کر زخم ایسا ہے کہ ہر اک کو دکھا بھی نہ سکوں حسن کی اور تب و تاب بڑھا دیتا ہے میں تو اس تل کا کبھی مول چکا بھی نہ سکوں عمر کے آخری نکڑ پہ ملاقات کا دکھ یوں ملا ہے کہ ترے ناز ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2