شکست دے کے مجھے دار پر سجاتا ہے

شکست دے کے مجھے دار پر سجاتا ہے
وہ اپنی جیت مری ہار پر سجاتا ہے


مزاج یار تری برہمی کے دل صدقے
عجیب رنگ رخ یار پر سجاتا ہے


اک ایسے لمحۂ تنہائی سے میں واقف ہوں
وہ جب مجھے لب و رخسار پر سجاتا ہے


ترے دوانے کو تصویر مل گئی ہے تری
بدل بدل کے جو دیوار پر سجاتا ہے


اسے پسند نہیں موتیے کے پھول مگر
کلائی میں مرے اصرار پر سجاتا ہے


وہ جس کے عیب ہنر سے بدل دیے میں نے
وہ تہمتیں مرے کردار پر سجاتا ہے


سلیمؔ فوزؔ صفائی میں کچھ نہیں کہنا
گلے میں طوق وہ اظہار پر سجاتا ہے