دور رہ بھی نہ سکوں پاس بلا بھی نہ سکوں
دور رہ بھی نہ سکوں پاس بلا بھی نہ سکوں
تو وہ اپنا ہے جسے اپنا بنا بھی نہ سکوں
اے مسیحا کوئی تدبیر مسیحائی کی کر
زخم ایسا ہے کہ ہر اک کو دکھا بھی نہ سکوں
حسن کی اور تب و تاب بڑھا دیتا ہے
میں تو اس تل کا کبھی مول چکا بھی نہ سکوں
عمر کے آخری نکڑ پہ ملاقات کا دکھ
یوں ملا ہے کہ ترے ناز اٹھا بھی نہ سکوں
اس قدر تلخ رویہ تو مرے ساتھ نہ رکھ
زندگی میں تجھے سینے سے لگا بھی نہ سکوں
وہ تعلق کو عجب موڑ پہ لے آیا ہے
ساتھ چل بھی نہ سکوں چھوڑ کے جا بھی نہ سکوں