اگر ہم چھوڑ دیں عرض ہنر خاموش ہو جائیں

اگر ہم چھوڑ دیں عرض ہنر خاموش ہو جائیں
ہمارے ساتھ یہ دیوار و در خاموش ہو جائیں


اسی باعث تو ہونٹوں پر سوال اب تک نہیں آیا
کہیں ایسا نہ ہو یہ چارہ گر خاموش ہو جائیں


طلسم بے یقینی ہر قدم پر گھیر لیتا ہے
نہ جانے دھڑکنیں کس موڑ پر خاموش ہو جائیں


اگر بے چہرہ آئینے کو چہرہ دے نہیں سکتے
تو سارے شہر کے آئینہ گر خاموش ہو جائیں


زمیں سے ہے وفائی مت کرو ورنہ یہ ممکن ہے
کہ شاخیں کٹ رہی ہوں اور شجر خاموش ہو جائیں