Saleem Ahmed

سلیم احمد

پاکستان کے ممتاز ترین نقادوں میں نمایاں۔ اینٹی غزل رجحان اور جدیدیت مخالف رویے کے لئے مشہور

One of the most prominent modern Urdu critics. Famous for his promotion of the Anti-ghazal trend of poetry and anti-modernism views.

سلیم احمد کی غزل

    مجھے ان آتے جاتے موسموں سے ڈر نہیں لگتا

    مجھے ان آتے جاتے موسموں سے ڈر نہیں لگتا نئے اور پر اذیت منظروں سے ڈر نہیں لگتا خموشی کے ہیں آنگن اور سناٹے کی دیواریں یہ کیسے لوگ ہیں جن کو گھروں سے ڈر نہیں لگتا مجھے اس کاغذی کشتی پہ اک اندھا بھروسا ہے کہ طوفاں میں بھی گہرے پانیوں سے ڈر نہیں لگتا سمندر چیختا رہتا ہے پس منظر ...

    مزید پڑھیے

    کوئی ستارۂ گرداب آشنا تھا میں

    کوئی ستارۂ گرداب آشنا تھا میں کہ موج موج اندھیروں میں ڈوبتا تھا میں اس ایک چہرے میں آباد تھے کئی چہرے اس ایک شخص میں کس کس کو دیکھتا تھا میں نئے ستارے مری روشنی میں چلتے تھے چراغ تھا کہ سر راہ جل رہا تھا میں سفر میں عشق کے اک ایسا مرحلہ آیا وہ ڈھونڈتا تھا مجھے اور کھو گیا تھا ...

    مزید پڑھیے

    بزم آخر ہوئی شمعوں کا دھواں باقی ہے

    بزم آخر ہوئی شمعوں کا دھواں باقی ہے چشم نم میں شب رفتہ کا سماں باقی ہے کٹ گئی عمر کوئی یاد نہ منظر نہ خیال ایک بے نام سا احساس زیاں باقی ہے کس کی جانب نگراں ہیں مری بے خواب آنکھیں کیا کوئی مرحلۂ عمر رواں باقی ہے سلسلے اس کی نگاہوں کے بہت دور گئے کار دل ختم ہوا کار جہاں باقی ...

    مزید پڑھیے

    لمحۂ رفتہ کا دل میں زخم سا بن جائے گا

    لمحۂ رفتہ کا دل میں زخم سا بن جائے گا جو نہ پر ہوگا کبھی ایسا خلا بن جائے گا یہ نئے نقش قدم میرے بھٹکنے سے بنے لوگ جب ان پر چلیں گے راستہ بن جائے گا گونج سننی ہو تو تنہا وادیوں میں چیخئے ایک ہی آواز سے اک سلسلہ بن جائے گا جذب کر دے میری مٹی میں لطافت کا مزاج پھر وہ تیرے شہر کی آب و ...

    مزید پڑھیے

    نہ جانے شعر میں کس درد کا حوالہ تھا

    نہ جانے شعر میں کس درد کا حوالہ تھا کہ جو بھی لفظ تھا وہ دل دکھانے والا تھا افق پہ دیکھنا تھا میں قطار قازوں کی مرا رفیق کہیں دور جانے والا تھا مرا خیال تھا یا کھولتا ہوا پانی مرے خیال نے برسوں مجھے ابالا تھا ابھی نہیں ہے مجھے سرد و گرم کی پہچان یہ میرے ہاتھوں میں انگار تھا کہ ...

    مزید پڑھیے

    جو بات دل میں تھی وہ کب زبان پر آئی

    جو بات دل میں تھی وہ کب زبان پر آئی سنا رہا ہے فسانے فریب گویائی نئے چراغ سر رہ گزر جلا آئی ہوائے نکہت گل تھی کہ میری بینائی تو گرم رات میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تھا ذرا قریب سے گزرا تو نیند سی آئی جو بات تجھ میں ہے وہ دوسروں میں کیا ملتی جو بات مجھ میں ہے تو نے بھی وہ کہاں پائی وہ ...

    مزید پڑھیے

    بیٹھے ہیں سنہری کشتی میں اور سامنے نیلا پانی ہے

    بیٹھے ہیں سنہری کشتی میں اور سامنے نیلا پانی ہے وہ ہنستی آنکھیں پوچھتی ہیں یہ کتنا گہرا پانی ہے بیتاب ہوا کے جھونکوں کی فریاد سنے تو کون سنے موجوں پہ تڑپتی کشتی ہے اور گونگا بہرا پانی ہے ہر موج میں گریاں رہتا ہے گرداب میں رقصاں رہتا ہے بیتاب بھی ہے بے خواب بھی ہے یہ کیسا زندہ ...

    مزید پڑھیے

    بن کے دنیا کا تماشا معتبر ہو جائیں گے

    بن کے دنیا کا تماشا معتبر ہو جائیں گے سب کو ہنستا دیکھ کر ہم چشم تر ہو جائیں گے مجھ کو قدروں کے بدلنے سے یہ ہوگا فائدہ میرے جتنے عیب ہیں سارے ہنر ہو جائیں گے آج اپنے جسم کو تو جس قدر چاہے چھپا رفتہ رفتہ تیرے کپڑے مختصر ہو جائیں گے رفتہ رفتہ ان سے اڑ جائے گی یکجائی کی بو آج جو گھر ...

    مزید پڑھیے

    ترک ان سے رسم و راہ ملاقات ہو گئی

    ترک ان سے رسم و راہ ملاقات ہو گئی یوں مل گئے کہیں تو کوئی بات ہو گئی دل تھا اداس عالم غربت کی شام تھی کیا وقت تھا کہ تم سے ملاقات ہو گئی یہ دشت ہول خیز یہ منزل کی دھن یہ شوق یہ بھی خبر نہیں کہ کہاں رات ہو گئی رسم جہاں نہ چھوٹ سکی ترک عشق سے جب مل گئے تو پرسش حالات ہو گئی خو بو رہی ...

    مزید پڑھیے

    دیکھنے کے لیے اک شرط ہے منظر ہونا

    دیکھنے کے لیے اک شرط ہے منظر ہونا دوسری شرط ہے پھر آنکھ کا پتھر ہونا وہاں دیوار اٹھا دی مرے معماروں نے گھر کے نقشے میں مقرر تھا جہاں در ہونا مجھ کو دیکھا تو فلک زاد رفیقوں نے کہا اس ستارے کا مقدر ہے زمیں پر ہونا باغ میں یہ نئی سازش ہے کہ ثابت ہو جائے برگ گل کا خس و خاشاک سے کم تر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5