Saleem Ahmed

سلیم احمد

پاکستان کے ممتاز ترین نقادوں میں نمایاں۔ اینٹی غزل رجحان اور جدیدیت مخالف رویے کے لئے مشہور

One of the most prominent modern Urdu critics. Famous for his promotion of the Anti-ghazal trend of poetry and anti-modernism views.

سلیم احمد کی غزل

    سوانگ بھرتا ہوں ترے شہر میں سودائی کا

    سوانگ بھرتا ہوں ترے شہر میں سودائی کا کہ یہی حال ہے اندر سے تماشائی کا بزم کے حال پہ اب ہم نہیں کڑھنے والے انتظامات میں کیا دخل تماشائی کا ہم تو سو جھوٹ بھی بولیں وہ اگر ہاتھ آئے کوئی ٹھیکا تو اٹھایا نہیں سچائی کا دل خوں گشتہ کو جا جا کے دکھائیں یارو شہر میں کام نہیں لالۂ ...

    مزید پڑھیے

    آج تو نہیں ملتا اور چھور دریا کا

    آج تو نہیں ملتا اور چھور دریا کا تو بھی آ کے ساحل پر دیکھ زور دریا کا میرا شور غرقابی ختم ہو گیا آخر اور رہ گیا باقی صرف شور دریا کا میرے جرم سادہ پر تشنگی بھی ہنستی ہے ایک گھونٹ پانی پر میں ہوں چور دریا کا مور اور بھنور دونوں محو رقص رہتے ہیں یہ بھنور ہے جنگل کا وہ ہے مور دریا ...

    مزید پڑھیے

    کچھ ہیں منظر حال کے کچھ خواب مستقبل کے ہیں

    کچھ ہیں منظر حال کے کچھ خواب مستقبل کے ہیں یہ تمنا آنکھ کی ہے وہ تقاضے دل کے ہیں ہم نے یہ نیرنگیاں بھی دہر کی دیکھیں کہ لوگ دوست ہیں مقتول کے اور ہم نوا قاتل کے ہیں عمر ساری راہ کے پتھر ہٹاتے کٹ گئی زخم میرے ہاتھ میں اک سعئ لا حاصل کے ہیں اک دھنک لہرا رہی ہے آنسوؤں کے درمیاں میری ...

    مزید پڑھیے

    یہ خواب اور بھی دیکھیں گے رات باقی ہے

    یہ خواب اور بھی دیکھیں گے رات باقی ہے ابھی تو اے دل زندہ حیات باقی ہے مرے لہو میں ابھی ترک عشق کے با وصف وہ گرمی‌ٔ نگہہ التفات باقی ہے ابھی تو ذوق طلب میں کمی نہیں آئی ابھی مرا سفر بے جہات باقی ہے جو ہو سکے تو شہادت گہ نظر میں آ یہ دیکھ عشق میں کتنا ثبات باقی ہے یہ کائنات ابھی ...

    مزید پڑھیے

    ترے سانچے میں ڈھلتا جا رہا ہوں

    ترے سانچے میں ڈھلتا جا رہا ہوں تجھے بھی کچھ بدلتا جا رہا ہوں نہ جانے تجھ کو بھولا ہوں کہ خود کو بہر صورت سنبھلتا جا رہا ہوں طبیعت ہے ابھی طفلانہ میری کھلونوں سے بہلتا جا رہا ہوں حقیقت کو مکمل دیکھنا ہے نظر کے رخ بدلتا جا رہا ہوں چلا ہے مجھ سے آگے میرا سایہ سو میں بھی ساتھ چلتا ...

    مزید پڑھیے

    میں سر چھپاؤں کہاں سایۂ نظر کے بغیر

    میں سر چھپاؤں کہاں سایۂ نظر کے بغیر کہ تیرے شہر میں رہتا ہوں اور گھر کے بغیر مجھے وہ شدت احساس دے کہ دیکھ سکوں تجھے قریب سے اور منت نظر کے بغیر یہ شہر ذہن سے خالی نمو سے عاری ہے بلائیں پھرتی ہیں یاں دست و پا و سر کے بغیر نکل گئے ہیں جو بادل برسنے والے تھے یہ شہر آب کو ترسے گا چشم ...

    مزید پڑھیے

    نہ پوچھو عقل کی چربی چڑھی ہے اس کی بوٹی پر

    نہ پوچھو عقل کی چربی چڑھی ہے اس کی بوٹی پر کسی شے کا اثر ہوتا نہیں کم بخت موٹی پر کفن سے دوسروں کے جو سلاتے ہیں لباس اپنا وہ جذبے ہنس رہے ہیں عشق سادہ کی لنگوٹی پر یہی عیش ایک دن اہل ہوس کا خون چاٹے گا ابھی کچھ دن لگا رکھیں وہ اس کتے کو روٹی پر نہ جانے کیسے نازک تار کو مضراب نے ...

    مزید پڑھیے

    سوچ میں گم بے کراں پہنائیاں

    سوچ میں گم بے کراں پہنائیاں عشق ہے اور ہجر کی تنہائیاں رات کہتی ہے کہ کٹنے کی نہیں درد کہتا ہے کرم فرمائیاں بین کرتی ہے دریچوں میں ہوا رقص کرتی ہیں سیہ پرچھائیاں خامشی جیسے کوئی آہ طویل سسکیاں لیتی ہوئی تنہائیاں کون تو ہے کون میں کیسی وفا حاصل ہستی ہیں کچھ رسوائیاں یاد سے ...

    مزید پڑھیے

    دیدنی ہے ہماری زیبائی

    دیدنی ہے ہماری زیبائی ہم کہ ہیں حسن کے تمنائی بس یہ ہے انتہا تعلق کی ذکر پر ان کے آنکھ بھر آئی تو نہ کر اپنی محفلوں کو اداس راس ہے ہم کو رنج تنہائی ہم تو کہہ دیں سلیمؔ حال ترا کب وہاں ہے کسی کی شنوائی اور تو کیا دیا بہاروں نے بس یہی چار دن کی رسوائی ہم کو کیا کام رنگ محفل سے ہم ...

    مزید پڑھیے

    کن نقابوں میں ہے مستور وہ حسن معصوم

    کن نقابوں میں ہے مستور وہ حسن معصوم اے مری چشم گنہ گار تجھے کیا معلوم حال دل قابل اظہار نہیں ہے ورنہ میرے چپ رہنے کا کچھ اور نہیں ہے مفہوم اجنبی ہوں میں ترے شہر کرم میں اے دوست کیا ہے اس شہر کا دستور مجھے کیا معلوم دل خوش فہم یہ کہتا تھا بلا لے گا کوئی جب میں اٹھا تھا تری بزم سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 5 سے 5