Saleem Ahmed

سلیم احمد

پاکستان کے ممتاز ترین نقادوں میں نمایاں۔ اینٹی غزل رجحان اور جدیدیت مخالف رویے کے لئے مشہور

One of the most prominent modern Urdu critics. Famous for his promotion of the Anti-ghazal trend of poetry and anti-modernism views.

سلیم احمد کی غزل

    دکھ دے یا رسوائی دے

    دکھ دے یا رسوائی دے غم کو مرے گہرائی دے اپنے لمس کو زندہ کر ہاتھوں کو بینائی دے مجھ سے کوئی ایسی بات بن بولے جو سنائی دے جتنا آنکھ سے کم دیکھوں اتنی دور دکھائی دے اس شدت سے ظاہر ہو اندھوں کو بھی سجھائی دے افق افق گھر آنگن ہے آنگن پار رسائی دے

    مزید پڑھیے

    عشق میں جس کے یہ احوال بنا رکھا ہے

    عشق میں جس کے یہ احوال بنا رکھا ہے اب وہی کہتا ہے اس وضع میں کیا رکھا ہے لے چلے ہو مجھے اس بزم میں یارو لیکن کچھ مرا حال بھی پہلے سے سنا رکھا ہے حال دل کون سنائے اسے فرصت کس کو سب کو اس آنکھ نے باتوں میں لگا رکھا ہے دل برا تھا کہ بھلا کام وفا کے آیا یار جانے بھی دے اس بحث میں کیا ...

    مزید پڑھیے

    اس آنکھ میں خواب ناز ہو جا

    اس آنکھ میں خواب ناز ہو جا اے ہجر کی شب دراز ہو جا اسرار تمام کھل رہے ہیں تو اپنے لیے بھی راز ہو جا اے نغمہ نواز آخر شب آہنگ شکست ساز ہو جا دیوار کی طرح بند کیوں ہے دستک کوئی دے تو باز ہو جا اب دن تو غروب ہو رہا ہے سائے کی طرح دراز ہو جا یاں فتح سبب ہے سرکشی کا تو ہار کے سرفراز ہو ...

    مزید پڑھیے

    دل کے اندر درد آنکھوں میں نمی بن جائیے

    دل کے اندر درد آنکھوں میں نمی بن جائیے اس طرح ملیے کہ جزو زندگی بن جائیے اک پتنگے نے یہ اپنے رقص آخر میں کہا روشنی کے ساتھ رہیے روشنی بن جائیے جس طرح دریا بجھا سکتے نہیں صحرا کی پیاس اپنے اندر ایک ایسی تشنگی بن جائیے دیوتا بننے کی حسرت میں معلق ہو گئے اب ذرا نیچے اتریے آدمی بن ...

    مزید پڑھیے

    وہ مرے دل کی روشنی وہ مرے داغ لے گئی

    وہ مرے دل کی روشنی وہ مرے داغ لے گئی ایسی چلی ہوائے شام سارے چراغ لے گئی شاخ و گل و ثمر کی بات کون کرے کہ ایک رات باد شمال آئی تھی باغ کا باغ لے گئی وقت کی موج تند رو آئی تھی سوئے مے کدہ میری شراب پھینک کر میرے ایاغ لے گئی دل کا حساب کیا کریں دل تو اسی کا مال تھا نکہت زلف عنبریں اب ...

    مزید پڑھیے

    جو دل میں ہیں داغ جل رہے ہیں

    جو دل میں ہیں داغ جل رہے ہیں مسجد میں چراغ جل رہے ہیں جس آگ سے دل سلگ رہے تھے اب اس سے دماغ جل رہے ہیں بچپن مرا جن میں کھیلتا تھا وہ کھیت وہ باغ جل رہے ہیں چہرے پہ ہنسی کی روشنی ہے آنکھوں میں چراغ جل رہے ہیں رستوں میں وہ آگ لگ گئی ہے قدموں کے سراغ جل رہے ہیں

    مزید پڑھیے

    زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے

    زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے گھاس اس قبر پہ کچھ اور ہری لگتی ہے روز کاغذ پہ بناتا ہوں میں قدموں کے نقوش کوئی چلتا نہیں اور ہم سفری لگتی ہے آنکھ مانوس تماشا نہیں ہونے پاتی کیسی صورت ہے کہ ہر روز نئی لگتی ہے گھاس میں جذب ہوئے ہوں گے زمیں کے آنسو پاؤں رکھتا ہوں تو ہلکی سی نمی ...

    مزید پڑھیے

    نیا مضموں کتاب زیست کا ہوں

    نیا مضموں کتاب زیست کا ہوں نہایت غور سے سوچا گیا ہوں سنیں مجھ کو تو میں دھڑکن ہوں دل کی نہیں سنتے تو صحرا کی صدا ہوں مری جانب کوئی آئے تو پوچھوں نشان راہ ہوں منزل ہوں کیا ہوں کسی کو کیا بتاؤں کون ہوں میں کہ اپنی داستاں بھولا ہوا ہوں خود اپنی دید سے اندھی ہیں آنکھیں خود اپنی ...

    مزید پڑھیے

    بجا یہ رونق محفل مگر کہاں ہیں وہ لوگ (ردیف .. ے)

    بجا یہ رونق محفل مگر کہاں ہیں وہ لوگ یہاں جو اہل محبت کے جانشیں ہوں گے کہاں سے آج مری روح میں چمک اٹھے وہ تیرے دکھ جو تجھے یاد بھی نہیں ہوں گے زمانہ گرم سفر ہے کہیں تو پائے گا وہ دل جو مہر و محبت کی سرزمیں ہوں گے میں کر رہا ہوں تری چشم نم سے اندازہ کہ آنے والے زمانے بہت حسیں ہوں ...

    مزید پڑھیے

    ہر آنکھ کا حاصل دوری ہے

    ہر آنکھ کا حاصل دوری ہے ہر منظر اک مستوری ہے جو سود و زیاں کی فکر کرے وہ عشق نہیں مزدوری ہے سب دیکھتی ہیں سب جھیلتی ہیں یہ آنکھوں کی مجبوری ہے اس ساحل سے اس ساحل تک کیا کہیے کتنی دوری ہے یہ قرب حباب و آب کا ہے یہ وصل نہیں مہجوری ہے میں تجھ کو کتنا چاہتا ہوں یہ کہنا غیر ضروری ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5