شام
دھیرے دھیرے شام آ رہی ہے
رات کی کتابوں میں
پت جھڑوں کی سانسوں میں
دھندلی دھندلی آنکھوں میں رات بڑھتی جا رہی ہے
نیند ایک گاؤں ہے
نیند کی تلاش میں
آوازیں آ رہی ہیں
پاؤں کھڑاؤں پہنے ست ست گا رہے ہیں
پیپل کے پات ہرے دھیرے دھیرے گر رہے ہیں
کئی ہاتھ بڑھ رہے ہیں
شک والے رنگ لیے موروں کے پنکھوں سے سبھتا کو لکھ رہے ہیں
پیپل کے پات ہرے دھیرے دھیرے گر رہے ہیں
ماٹی کے ڈبلے میں پھوئے پھوئے جل رہے ہیں
پیپل کے پات ہرے دھیرے دھیرے گر رہے ہیں
دھیرے دھیرے گر رہے ہیں
دھیرے دھیرے شام آ رہی ہے
مٹی برسنے کے شنکھ چیخنے لگے ہیں
مرد سب کپاس سے بندھے ہوئے
سرل سپاٹ انگلیوں سے
اپنے اپنے گھر کے سائبان میں
اپنے اپنے دیوتاؤں کی شبیہیں لکھ رہے ہیں
آسنوں کے رمز میں گندھی ہوئی تمام عورتیں بھی آ گئی ہیں
عورتیں ہتھیلیوں سے چاند بن رہی ہیں
دودھ کی کٹوریوں سے سورجوں کی آتمائیں متھ رہی ہیں
دھیرے دھیرے جل رہی ہیں
دھیرے دھیرے بجھ رہی ہیں
دھیرے دھیرے شام آ رہی ہے