ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے
اس سے محبوب مرا اچھا بہت اچھا ہے
بوسہ دیتا نہیں پر دل میں چھپا جاتا ہے
پاس رکھتا ہوں میں اک جام سفال ہر لمحہ
ساغر جم سے تو بہتر ہے
بازار میں مل جاتا ہے
مرا محبوب جب آتا ہے مرے گھر
دیکھنے طبیعت میری
اس کے دیکھن سے جو آ جاتی ہے
چہرے پہ رمق
وہ سمجھتا ہے کہ بیماری بہانہ ہے مرا
دیکھنا ہے کہ عشاق بتوں سے مل کے
فیض پائیں گے یا لعنت کے سوا
اور نہیں کچھ
قطرہ دریا میں جو مل جائے
تو دریا ہو جائے
میں بھی قطرہ ہوں
تو یہ دیکھوں کہ دریا کیا ہے
اس میں آتی تو نظر ہے مجھے اپنی جھلک
میں ہوں دوزخ میں یا برزخ میں
کہاں اور کہاں
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے