شعلۂ عشق

ناز و انداز حسینوں کے
وہ عشرے غمزے
بعد مرنے کے مرے ختم ہوئے
اب نہ ناخن میں حنا ہے نہ سرمہ ہے کہیں آنکھوں میں
جو مرے دم سے تھا
کہ میں عاشق تھا اکیلا تنہا
بعد میرے کیا یہ منصب کوئی پائے گا کبھی
شعلۂ شمع سیہ پوش ہوا
ماتم میں دھواں بن کے
کہیں خاموش ہوا
شمع روشن تھی بجھ گئی جلتے جلتے
بعد مرنے کے مرے عشق کی حالت ہے یہی
کہ کہیں گم ہو گیا وہ روتے روتے