وہ ماہ وش ہے زمیں پر نظر جھکائے ہوئے
وہ ماہ وش ہے زمیں پر نظر جھکائے ہوئے
ستارے بیٹھے رہیں محفلیں سجائے ہوئے
گئے تھے کتنی امنگوں کو لے کے سینے میں
جو تیری بزم سے اٹھے تو سر جھکائے ہوئے
ہمیں بھی پیار سے دیکھو کہ ہم ہیں خستہ جگر
غم زمانہ کے مارے ہوئے ستائے ہوئے
ہمیں تو ایک نہیں کشتۂ مآل کرم
کچھ اور بھی ہیں فریب نگاہ کھائے ہوئے
خیال دوریٔ منزل تھکا بھی دیتا ہے
چلے چلو ابھی آگے قدم بڑھائے ہوئے
کبھی جو رہتے تھے سرمست نشتر غم دوست
وہ جا رہے غم جاں سے منہ کی کھائے ہوئے