Sajjad Baqar Rizvi

سجاد باقر رضوی

سجاد باقر رضوی کی غزل

    تجھے میں ملوں تو کہاں ملوں مرا تجھ سے ربط محال ہے

    تجھے میں ملوں تو کہاں ملوں مرا تجھ سے ربط محال ہے تری بزم بزم نشاط ہے مری بزم بزم خیال ہے ترا دل نہیں ترے ہاتھ میں مجھے دیکھ میں ہوں گرفتہ دل مرا جبر میری نجات ہے یہ مرے ہنر کا کمال ہے نہ تو ہم زباں نہ تو ہم زماں مرا تجھ سے کیسا معاملہ مرا عہد عہد کمال غم ترا عہد عہد زوال ہے میں ...

    مزید پڑھیے

    اب کے قمار عشق بھی ٹھہرا ایک ہنر دانائی کا

    اب کے قمار عشق بھی ٹھہرا ایک ہنر دانائی کا شوق بھی تھا اس کھیل کا ہم کو خوف بھی تھا رسوائی کا بس وہی اک بے کیف اداسی بس وہی بنجر سناٹا سو سو رنگ ملن کے دیکھے ایک ہی رنگ جدائی کا پیار کی جنگ میں یارو ہم نے دو ہی خدشے دیکھے ہیں پہلے پہل تھا خوف اسیری اب ہے خوف رہائی کا اپنی ہوا میں ...

    مزید پڑھیے

    عشق تو ساری عمر کا اک پیشہ نکلا

    عشق تو ساری عمر کا اک پیشہ نکلا ہم نے کیا سوچا تھا یارو کیا نکلا دل کا پتھر پگھلے تو کیا نکلے گا پتھر کا دل پگھلا تو دریا نکلا بھاگ رہا ہے دریا بھی ساگر کی طرف پیاس بجھانے والا خود پیاسا نکلا صبح سویرے تھی کرنوں کی بزم سجی شام کو گھر سے تنہا اک سایہ نکلا اتنی عمر میں اپنے معنی ...

    مزید پڑھیے

    ہے دکان شوق بھری ہوئی کوئی مہرباں ہو تو لے کے آ

    ہے دکان شوق بھری ہوئی کوئی مہرباں ہو تو لے کے آ زر داغ دل کا سوال ہے کوئی نقد جاں ہو تو لے کے آ رہی یہ فضا تو جئیں گے کیا کوئی اب بنائے دگر اٹھا کوئی ہو زمیں تو نکال اسے کوئی آسماں ہو تو لے کے آ جو ہو ذوق درد کا یہ سماں تو اچھال دے کوئی آسماں ترے داغ دل مہ و مہر میں کہیں کہکشاں ہو ...

    مزید پڑھیے

    زباں کو ذائقۂ شعر تر نہیں ملتا

    زباں کو ذائقۂ شعر تر نہیں ملتا بڑھا ہے زور زباں میں اثر نہیں ملتا خود اپنے حال کی کوئی خبر نہیں ملتی کوئی بھی جذبۂ دل معتبر نہیں ملتا سبھی ہیں کھوئی ہوئی منزلوں کی گرد میں گم سفر بہت ہے مآل سفر نہیں ملتا جو دشت میں تھے وہ بیگانۂ خلائق تھے جو شہر میں تھے انہیں اپنا گھر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    دل کی بساط پہ شاہ پیادے کتنی بار اتارو گے

    دل کی بساط پہ شاہ پیادے کتنی بار اتارو گے اس بستی میں سب شاطر ہیں تم ہر بازی ہارو گے پریم پجاری مندر مندر دل کی کتھا کیوں گاتے ہو بت سارے پتھر ہیں پیارے سر پتھر سے مارو گے دل میں کھینچ کے اس کی صورت آج تو خوش خوش آئے ہو کل سے اس میں رنگ بھرو گے کل سے نقش ابھارو گے سارے دن تو اس کی ...

    مزید پڑھیے

    لفظ جب کوئی نہ ہاتھ آیا معانی کے لیے

    لفظ جب کوئی نہ ہاتھ آیا معانی کے لیے کیا مزے ہم نے زبان بے زبانی کے لیے یہ دوراہا ہے چلو تم رنگ و بو کی کھوج میں ہم چلے صحرائے دل کی باغبانی کے لیے زندگی اپنی تھی گویا لمحۂ فرقت کا طول کچھ مزے ہم نے بھی عمر جاودانی کے لیے میں بھلا ٹھنڈی ہوا سے کیا الجھتا چپ رہا پھول کی خوش بو بہت ...

    مزید پڑھیے

    اپنے جینے کو کیا پوچھو صبح بھی گویا رات رہی

    اپنے جینے کو کیا پوچھو صبح بھی گویا رات رہی تم بھی روٹھے جگ بھی روٹھا یہ بھی وقت کی بات رہی پیار کے کھیل میں دل کے مالک ہم تو سب کچھ کھو بیٹھے اکثر تم سے شرط لگی ہے اکثر اپنی مات رہی لاکھ دئے دنیا نے چرکے لاکھ لگے دل پر پہرے حسن نے لاکھوں چالیں بدلیں لیکن عشق کی گھات رہی تم کیا ...

    مزید پڑھیے

    میں ہم نفساں جسم ہوں وہ جاں کی طرح تھا

    میں ہم نفساں جسم ہوں وہ جاں کی طرح تھا میں درد ہوں وہ درد کے عنواں کی طرح تھا جس کے لیے اک عمر کنویں جھانکتے گزری وہ ماہ کراچی مہ کنعاں کی طرح تھا تو کون تھا کیا تھا کہ برس گزرے پر اب بھی محسوس یہ ہوتا ہے رگ جاں کی طرح تھا جس کے لئے کانٹا سا چبھا کرتا تھا دل میں پہلو میں وہ آیا تو ...

    مزید پڑھیے

    ہو دل لگی میں بھی دل کی لگی تو اچھا ہے

    ہو دل لگی میں بھی دل کی لگی تو اچھا ہے لگا ہو کام سے گر آدمی تو اچھا ہے اندھیری شب میں غنیمت ہے اپنی تابش دل حصار جاں میں رہے روشنی تو اچھا ہے شجر میں زیست کے ہے شاخ غم ثمر آور جو ان رتوں میں پھلے شاعری تو اچھا ہے یہ ہم سے ڈوبتے سورج کے رنگ کہتے ہیں زوال میں بھی ہو کچھ دل کشی تو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5