Sajid Rais Warsi

ساجد رئیس وارثی

ساجد رئیس وارثی کی غزل

    چپکے سے ہوا آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو

    چپکے سے ہوا آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو دھیرے سے تھپک جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو وہ گیت جو ایک بار کبھی تم سے سنا تھا وہ گیت کوئی گائے تو لگتا ہے کہ تم ہو اس دھوپ بھرے شہر میں جب میرے برابر سایا کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ویسے تو کوئی پیار سے ملتا نہیں لیکن ایسا کبھی ہو جائے تو لگتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    ورق ورق سا بکھرتا کتاب غم جیسا

    ورق ورق سا بکھرتا کتاب غم جیسا ملے گا شہر میں شاید ہی کوئی ہم جیسا ہر ایک شب گزشتہ کو دعوتیں دے کر منائے جشن حسیں کوئی جشن غم جیسا کبھی وہ انجمن دل کبھی وہ صرف سکوت کبھی وہ حد سے تجاوز کبھی وہ کم جیسا گلے لگا کے جسے خوب روئے خوب ہنسے کبھی ملا ہی نہیں کوئی ہم سے ہم جیسا میں ایک ...

    مزید پڑھیے

    یہ روز و شب گزرتے لگ رہے ہیں

    یہ روز و شب گزرتے لگ رہے ہیں مگر لمحے ٹھہرتے لگ رہے ہیں نہ جانے کب سے لاشیں سڑ رہی ہیں پرندے گشت کرتے لگ رہے ہیں میں خود سے دور ہوتا جا رہا ہوں پرانے زخم بھرتے لگ رہے ہیں یہ بازاروں میں مہنگائی کا عالم سبھی چہرے اترتے لگ رہے ہیں کبھی پہلے نہ تھے ایسے مگر اب سبھی موسم مکرتے لگ ...

    مزید پڑھیے

    وہ لکھتا ہے جب یادوں کے چاند ستارے کاغذ پر

    وہ لکھتا ہے جب یادوں کے چاند ستارے کاغذ پر خود ہی اتر کر آ جاتے ہیں سارے نظارے کاغذ پر اوپر نیچے آگے پیچھے کونے کنارے کاغذ پر اس کو لکھا ہے سر سے پا تک میں نے سارے کاغذ پر شاید اس پر سر رکھ کر وہ لکھتے لکھتے سویا ہے اس کے لب و رخسار کی خوشبو جذب ہے سارے کاغذ پر اس کے خط کے کورے ورق ...

    مزید پڑھیے

    آنے والے لمحوں کی روشنی کو لکھنا ہے

    آنے والے لمحوں کی روشنی کو لکھنا ہے ایک نئی عبارت میں زندگی کو لکھنا ہے بولنے لگیں اپنے گھر کے سب در و دیوار جو سنائی دے ایسی خامشی کو لکھنا ہے ایک حسین بچے کی کیا حسین خواہش ہے چاند کی طرف سے خط چاندنی کو لکھنا ہے ایک دو کی کوشش سے وقت کیسے بدلے گا اپنے وقت کی قسمت ہم سبھی کو ...

    مزید پڑھیے