وہ لکھتا ہے جب یادوں کے چاند ستارے کاغذ پر
وہ لکھتا ہے جب یادوں کے چاند ستارے کاغذ پر
خود ہی اتر کر آ جاتے ہیں سارے نظارے کاغذ پر
اوپر نیچے آگے پیچھے کونے کنارے کاغذ پر
اس کو لکھا ہے سر سے پا تک میں نے سارے کاغذ پر
شاید اس پر سر رکھ کر وہ لکھتے لکھتے سویا ہے
اس کے لب و رخسار کی خوشبو جذب ہے سارے کاغذ پر
اس کے خط کے کورے ورق پر خون کے آنسو بکھریں ہیں
جیسے کوئی بھول سے رکھ دے کچھ انگارے کاغذ پر
ساجدؔ اپنے دل کے ورق پر نقش اسے کر لینا ہے
اپنی غزل میں کیا رکھا ہے کون اتارے کاغذ پر