ورق ورق سا بکھرتا کتاب غم جیسا
ورق ورق سا بکھرتا کتاب غم جیسا
ملے گا شہر میں شاید ہی کوئی ہم جیسا
ہر ایک شب گزشتہ کو دعوتیں دے کر
منائے جشن حسیں کوئی جشن غم جیسا
کبھی وہ انجمن دل کبھی وہ صرف سکوت
کبھی وہ حد سے تجاوز کبھی وہ کم جیسا
گلے لگا کے جسے خوب روئے خوب ہنسے
کبھی ملا ہی نہیں کوئی ہم سے ہم جیسا
میں ایک پیاس کا صحرا عظیم لا محدود
وہ اک طویل سمندر مگر ہے کم جیسا
وہ دور دور کا منظر میں لمحہ لمحہ تلاش
وہ فاصلوں کی طرح میں قدم قدم جیسا
حضور عشق کی اس بارگاہ میں ساجدؔ
ہمیں خطاب ملا ہے جناب غم جیسا