سحر انصاری کی غزل

    ہاتھ آ سکا ہے سلسلۂ جسم و جاں کہاں

    ہاتھ آ سکا ہے سلسلۂ جسم و جاں کہاں اپنی طلب میں گھوم چکا ہوں کہاں کہاں جس بزم میں گیا طلب سر خوشی لیے مجھ سے ترے خیال نے پوچھا یہاں کہاں میں آج بھی خلا میں ہوں کل بھی خلا میں تھا میرے لیے زمین کہاں آسماں کہاں تو ہے سو اپنے حسن کے باوصف غم نصیب میں ہوں تو میرے ہاتھ میں کون و مکاں ...

    مزید پڑھیے

    اک شرار گرفتہ رنگ ہوں میں

    اک شرار گرفتہ رنگ ہوں میں پھول سے لے کے تا بہ سنگ ہوں میں باد صرصر کی طرح گرم عناں سینۂ ریگ کی امنگ ہوں میں ذرہ ذرہ نے کر دیا حیراں اور حیرانیوں پہ دنگ ہوں میں فتح بھی اک شکست ہی ہوگی آرزوؤں سے محو جنگ ہوں میں کیسے تجھ کو بہا کے لے جاؤں موج ہمسایۂ نہنگ ہوں میں شہر و صحرا کی کچھ ...

    مزید پڑھیے

    پیمانۂ حال ہو گئے ہم

    پیمانۂ حال ہو گئے ہم گردش میں مثال ہو گئے ہم تکمیل کمال ہوتے ہوئے تمہید زوال ہو گئے ہم ہر شخص بنا ہے ناز بردار جب خود پہ وبال ہو گئے ہم دریوزہ گروں کی انجمن میں کشکول سوال ہو گئے ہم آئینۂ کرب لفظ و معنی فرہنگ ملال ہو گئے ہم امکان وجود کے سفر پر نکلے تو محال ہو گئے ہم پہلے تو ...

    مزید پڑھیے

    من کے مندر میں ہے اداسی کیوں

    من کے مندر میں ہے اداسی کیوں نہیں آئی وہ دیو داسی کیوں ابر برسا برس کے کھل بھی گیا رہ گئی پھر زمین پیاسی کیوں اک خوشی کا خیال آتے ہی چھا گئی ذہن پر اداسی کیوں زندگی بے وفا ازل سے ہے پھر بھی لگتی ہے باوفا سی کیوں ایسی فطرت شکار دنیا میں اتنی انسان نا شناسی کیوں کیوں نہیں ایک ...

    مزید پڑھیے

    نہ کسی سے کرم کی امید رکھیں نہ کسی کے ستم کا خیال کریں

    نہ کسی سے کرم کی امید رکھیں نہ کسی کے ستم کا خیال کریں ہمیں کون سے رنج ملے ہیں نئے کہ جو دل کے زیاں کا ملال کریں ابھی صرف خیال ہے خواب نما ابھی صرف نظر ہے سراب نما ذرا اور خراب ہو وضع جنوں تو وہ زحمت پرسش حال کریں وہی شہر ہے شہر کے لوگ وہی غم خندہ و سنگ و صلیب وہی یہاں آئے ہیں کون ...

    مزید پڑھیے

    اک خواب کے موہوم نشاں ڈھونڈ رہا تھا

    اک خواب کے موہوم نشاں ڈھونڈ رہا تھا میں حد یقیں پر بھی گماں ڈھونڈ رہا تھا سائے کی طرح بھاگتے ماحول کے اندر میں اپنے خیالوں کا جہاں ڈھونڈ رہا تھا جو راز ہے وہ کھل کے بھی اک راز ہی رہ جائے اظہار کو میں ایسی زباں ڈھونڈ رہا تھا مرہم کی تمنا تھی مجھے زخم سے باہر درماں تھا کہاں اور ...

    مزید پڑھیے

    محسوس کیوں نہ ہو مجھے بیگانگی بہت

    محسوس کیوں نہ ہو مجھے بیگانگی بہت میں بھی تو اس دیار میں ہوں اجنبی بہت آساں نہیں ہے کشمکش ذات کا سفر ہے آگہی کے بعد غم آگہی بہت ہر شخص پرخلوص ہے ہر شخص با وفا آتی ہے اپنی سادہ دلی پر ہنسی بہت اس جان جاں سے قطع تعلق کے باوجود اس رہ گزر میں آج بھی ہے دل کشی بہت اس وضع احتیاط کی ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے آداب غم کا پاس کیا

    ہم نے آداب غم کا پاس کیا نقد جاں کو زیاں قیاس کیا زیست کے تجربات کا ہم نے مثل آئینہ انعکاس کیا خبر آگہی کے پردے میں عمر بھر ماتم حواس کیا تہمت شعلۂ زباں لے کر صورت زخم التماس کیا کیسے اک لفظ میں بیاں کر دوں دل کو کس بات نے اداس کیا آ گیا جب سلیقۂ تعمیر قصر ہستی کو بے اساس ...

    مزید پڑھیے

    اک آس کا دھندلا سایہ ہے اک پاس کا تپتا صحرا ہے

    اک آس کا دھندلا سایہ ہے اک پاس کا تپتا صحرا ہے کیا دیکھ رہے ہو آنکھوں میں ان آنکھوں میں کیا رکھا ہے جب کھونے کو کچھ پاس بھی تھا تب پانے کا کچھ دھیان نہ تھا اب سوچتے ہو کیوں سوچتے ہو کیا کھویا ہے کیا پایا ہے میں جھوٹ کو سچ سے کیوں بدلوں اور رات کو دن میں کیوں گھولوں کیا سننے والا ...

    مزید پڑھیے

    کہیں وہ چہرۂ زیبا نظر نہیں آیا

    کہیں وہ چہرۂ زیبا نظر نہیں آیا گیا وہ شخص تو پھر لوٹ کر نہیں آیا کہوں تو کس سے کہوں آ کے اب سر منزل سفر تمام ہوا ہم سفر نہیں آیا میں وہ مسافر دشت غم محبت ہوں جو گھر پہنچ کے بھی سوچے کہ گھر نہیں آیا صبا نے فاش کیا راز بوئے گیسوئے یار یہ جرم اہل تمنا کے سر نہیں آیا کبھی کوئی ترے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3